ڈاکٹر طاہر بھلر
جناب روف مغل ایم پی اے کے چھوٹے بھائی گزشتہ دنوں انتقال کر گئے تو راقم تعزیت کے لیے پہنچا تو روف مغل صاحب کو حسب معمول دیدہ و فرش راہ پایا۔ ان کی درویشانہ خصلت اور انسان دوستی اس حلقے کے عوام اور ان کی پارٹی کے لئے ایک نعمت سے کم نہیں کہ آج تک ان پر کرپشن کا الزام ان کے کسی سیاسی مخالف نے بھی آج تک نہ لگا یا۔آج ان کے صاحبزادے معظم روف مغل جو کہ اپنے فلاحی کاموں اور مختلف فری میڈیکل سنٹرز جلا کر عام غریب عوام کی خدمت کر رہے ہیںان سے بھی ملاقات ہوئی ۔ ان کے لہجہ ان کے عزم کی دلالت تو کر رہا تھا لیکن ان کے اپنے حلقے کہ عوام کی خدمت کا جواں جذبہ بہت بھایا۔ان سے مختلف موضوعات پر گفتگو ہوئی۔ ان کے اخلاق وکر دار سے ہم نہیں بلکہ ان کے مخالفین بھی معتقد نظر آ تے ہیں۔ان کی شخصیت میں مجھے ان کے والد کا پرتو نظر آیا۔ وہ کھل کر ہر موضوع پر ناقدانہ جائزہ لے رہے تھے ۔ ان کی باریش شکل وشباہت لیکن کم عمری ان کا بے ساختگی سے سوال و کا اسلوب اور لہجہ ان کی فطرت کی سچائی کا منہ بولتا ثبوت پیش کر رہی تھی۔ھوڑی دیر کی گفتگو سے میں نے اندازہ لگایا کہ وہ اپنے حلقے کی حدود کے ایک ایک انچ سے کما حقہ واقف تھے اور ان کے سینیڑری سے لے کر بجلی قانی اور راستوں کی مرمت سے لے کر سکولوں اور کالجوں کی تعداد اور اس حلقے کے ان ادادوں اور متعلقہ تھانوں کی نوک پلک سنوارنے کے بھی اپنی ذمہ داری سے آگاہ تھے ۔ خیر ہم نے ان سے خرم صاحب کے بارے میں زیادہ اس لئے نہ پوچھا کہ اس موضوع پران کے والد سے کئی مرتبہ گفتگو ہو چکی تھی۔ قارئین آپ کو سرسری انداز میں بتاتا چلوں کے گوجرانوالا میں برادریوں کے تناسب سے راقم کے خیال میں سب سے زیادہ تعداد میں مغل ، کھوکر اس کے بعد ارائیں ، انصاری، گوجر اور جٹ اور کشمیری میرے خیال میں سب سے کم تعداد میں ہیں۔ لیکن اس شہر کی سیاسی تاریخ میں میاں منظورالحسن، دستگیر ، خر م دستگیر، جو کہ کشمیری برادری سے تعلق رکھتے ہیں سب سے زیادہ دفعہ اسمبلی میں پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ارائیں برادری سے حاجی امان الا ، ہمایوںخالد، عمران اور انصاری برادری سے عثمان ابراہیم اور قصائی برادری سے ادریس جبکہ چودھری برادران میں چٹھہ اور گجرات کے چودھریضلعی سطح پر کامیاب ہوتے رہے۔ پچاس لاکھ سے تجاوزز کرتی ہوی آبادی کے اس شہر میں کوڑے کے ڈھیر، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ان اسملی کے ممبران کا منہ چڑارہی ہیں جو کم ازکم پچاس سالوں سے اس بدقسمت شہر کی ترجمانی کرنے کا دعوی کرتے نہیں تھکتے لیکن ان کے داتی بینک بیلنس اور پراپرٹیوں میں از حد اضافہ ہو چکا ہے لیکن شہر کے ویسٹ مینجمنٹ سسٹم ، کارپوریشن ، رجسٹری اور پٹواری نظام اب زیادہ دیدہ دلیری سے غریبوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہا ہے۔ ہسپتالوں میں ایک بیڈ پر چار چار مریض جگہ لینے کو ترس جاتے ہیں اور شہر کی آبادی کے قریب ہونے کی بجائے دور ایک گاوئں میں دس سال سے بھی زیادہ عرصہ ہونے کو ہے، ہسپتال شفٹ ہونے کی کوشش میں نہ جانیعوام کو آنے جانے میں کتنی تکلیف اٹھانی پڑرہی ہے جبکہ ادھر ابھی تک کوئی مناسب بندوبست تک بھی نہیں ہوا ۔ کیا ہی بہتر ہوتا اگر پہلے تمام ڈیپارٹمنٹس کی شفٹنگ کا مکمل انتظام ہو جاتا تو عوام پرانے ہسپتال اور نئے ہسپتال کے درمیان شٹل کاک نہ بنتے اور اتنی تکلیفوں سے نہ گزرتے۔ آج گوجرانوالا میںنہ آئی ٹی کی بینالاقوامی معیار کی یونیورسٹی ہے نہ سیالکوٹ کی طرح کا ایر پورٹ نہ کوئی فیشن یا میڈیا انڈسٹری یا ہائی کورٹ کی عمارت، کوئی بڑا انویسٹر شائد اس لئے اس شہر سے بھاگ گیا ہے کہ کہیں یہاں کے سیاسی بزرگ ان کو اپنے لئے خطرہ نہ سمجھیں ۔ مزید براں مین جی ٹی روڈ پر ستر سال ہونے کو ہیں عوام پھاٹکوں کے کھلنے اور ٹریفک کے ازدہام میں شدید مشکلات سے گزر رہی ہے ۔ جی ٹی روڈ پر ہر طرف تجاوزات نے شہر کو لا وارث سا کر رکھا ہے۔ اگر مخلصانہ کوشش کی جاتی توایک نہیں کئی انڈر پاس یا اور پاس عوام کی تکالیف کو کم کر سکتے تھے۔پرانا ، قدیم شہر میں کچرے ، کوڑے کے جا بجا ڈھیر اور ابلتے ہوے گٹر بوسیدہ ناقص نکاسی آب کی وجہ سے شہر نیچے اور سڑکیں اور گلیاں اونچی ہونے کی وجہ سے شہر کی اکثر عمارتیں نیچے چلی گی ہیں اور گلیاں ، سڑکیں اوپر ہوگیں ہیں جن کی وجہ سے معمولی بارش سے پانی گھروں کے اندر چلا جاتا ہے اور معمول سے ہلکی زیادہ بارشوں سے سڑکیں بھی تالاب کا منظر پیش کر رہی ہوتی ہیں گندگی سے بھری نالیاں ان نسل در نسل ممبر یننے والوں کے باعث شرم ہے ۔ کاش کمیشن مافیا سے اس نکاسی آب کا کوئی حل کر کے شہر کو کم ازکم گٹروں کے پانی سے ڈوبنے سے بچانے کا کوئی جائز اہتمام کیا جا سکتا۔