ہم نے اپنی موٹر سائیکل میں دو لٹر پٹرول ڈلوایا اور دو سو روپے پٹرول پمپ کے باوردی ملازم کے ہاتھ پر رکھ دئیے۔
ملازم نے سو روپے کا نوٹ فوراً واپس کیا اور مزید اسی روپے ہماری طرف بڑھاتے ہوئے کہنے لگا۔ پٹرول دس روپے فی لٹر ہو گیا ہے۔
’’نہ بابا نہ‘ میں زیادہ پیسے دوں گا۔‘‘
’’پورے پاکستان میں پٹرول دس روپے فی لٹر ہو گیا ہے۔ ہم دس روپے لٹر سے ایک پیسہ زیادہ نہیں لیں گے۔‘‘
اُف اتنا سستا پٹرول‘ تم نے ہمارے ہوش اُڑا دئیے ہیں۔ اسے پٹرول ہوشربا کہنا چاہئے۔ بعض چیزیں سستی ہو کر جچتی ہیں مگر پٹرول ایک ایسی چیز ہے کہ اس کی قیمت کو جتنی آگ لگے‘ اس کے حُسن میں اتنا ہی نکھار آتا ہے۔ جس شان سے ہم جیسے موٹر سائیکل سوار پٹرول پمپ پر آتے ہیں‘ وہ شان تبھی سلامت رہ سکتی ہے‘ جب اس کی قیمت فی لٹر آسمان سے باتیں کر رہی ہو۔ یہ کیا قیمت ہوئی۔ دس روپے فی لٹر۔ پانی اور پٹرول میں کچھ تو فرق ہونا چاہئے۔ چلو میری مانو۔ پچاس روپے کاٹ لو۔
’’آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں۔ یہ پاکستانی حکومت نے فیصلہ کیا ہے۔‘‘
’’یار! دس روپے فی لٹر پٹرول خرید کر بے عزتی سی معلوم ہو رہی ہے۔ بہت سارے لوگ بہت ساری چیزوں کا نشہ کرتے ہیں۔ وہ ان نشوں کے سہارے کتنے ہزار فٹ کی بلندی تک پرواز کرتے ہیں۔ ہم نے سگریٹ پانی کا کوئی نشہ نہیں لگایا۔ پٹرول پمپ پر بار بار آ کر جیب خالی کرانا ہی ہمارا نشہ ہے۔ چلو ضد نہ کرو۔ پینتالیس روپے لگا لو۔ ویسے لوگ کیا کہیں گے۔ دس روپے فی لٹر پٹرول والی موٹر سائیکل چلا رہا ہے۔ اتنے سستے پٹرول کی بُو سونگھنے کے لئے شاید کُتے بھی ہماری موٹر سائیکل کا تعاقب نہ کریں۔‘‘
’’دیکھیں! رنگ برنگے موٹر سائیکلوں کی لائن لگ گئی ہے۔ دس روپے فی لٹر آخری دام ہیں۔ وگرنہ کسی اور پٹرول پمپ کا رُخ کریں۔‘‘
’’ہم ناشتہ لینے بازار گئے تو دکاندار سے کہنے لگے۔ بھئی! تمہارا پنکھا یو پی ایس پر چل رہا ہے کیا؟‘‘
’’جناب! آپ کو کچھ خبر نہیں‘ کالاباغ ڈیم بن گیا ہے۔ اب ہر طرف بجلی ہی بجلی ہے۔‘‘
’’یار! ہم نے اپنی زندگی لوڈ شیڈنگ کے مطابق ڈھال لی تھی۔ ہم نے گھڑیاں دیکھنا بند کر دی تھیں۔ ہم بیٹھے بیٹھے پچھلے زمانے کی سیر کر لیتے تھے۔ پرانے زمانے کے بادشاہ بجلی کے بغیر ہی پوری زندگی بسر کرتے تھے۔‘‘
’’جناب! کالاباغ ڈیم بننے سے پوری قوم اندھیروں سے نکل آئی ہے اور آپ عجیب باتیں کر رہے ہیں۔‘‘
’’کالاباغ ڈیم بننے سے کارخانے اور فیکٹریاں چل پڑیں گی۔ یار ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے اور وقت ضائع کرنے کا مزہ ہی کچھ اور تھا۔ کبھی کبھار جلوس نکال لیتے تھے۔ ٹائر جلا لیتے تھے اور ٹرینوں کو آگ وغیرہ لگا لیتے تھے۔‘‘
ملازم نے سو روپے کا نوٹ فوراً واپس کیا اور مزید اسی روپے ہماری طرف بڑھاتے ہوئے کہنے لگا۔ پٹرول دس روپے فی لٹر ہو گیا ہے۔
’’نہ بابا نہ‘ میں زیادہ پیسے دوں گا۔‘‘
’’پورے پاکستان میں پٹرول دس روپے فی لٹر ہو گیا ہے۔ ہم دس روپے لٹر سے ایک پیسہ زیادہ نہیں لیں گے۔‘‘
اُف اتنا سستا پٹرول‘ تم نے ہمارے ہوش اُڑا دئیے ہیں۔ اسے پٹرول ہوشربا کہنا چاہئے۔ بعض چیزیں سستی ہو کر جچتی ہیں مگر پٹرول ایک ایسی چیز ہے کہ اس کی قیمت کو جتنی آگ لگے‘ اس کے حُسن میں اتنا ہی نکھار آتا ہے۔ جس شان سے ہم جیسے موٹر سائیکل سوار پٹرول پمپ پر آتے ہیں‘ وہ شان تبھی سلامت رہ سکتی ہے‘ جب اس کی قیمت فی لٹر آسمان سے باتیں کر رہی ہو۔ یہ کیا قیمت ہوئی۔ دس روپے فی لٹر۔ پانی اور پٹرول میں کچھ تو فرق ہونا چاہئے۔ چلو میری مانو۔ پچاس روپے کاٹ لو۔
’’آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں۔ یہ پاکستانی حکومت نے فیصلہ کیا ہے۔‘‘
’’یار! دس روپے فی لٹر پٹرول خرید کر بے عزتی سی معلوم ہو رہی ہے۔ بہت سارے لوگ بہت ساری چیزوں کا نشہ کرتے ہیں۔ وہ ان نشوں کے سہارے کتنے ہزار فٹ کی بلندی تک پرواز کرتے ہیں۔ ہم نے سگریٹ پانی کا کوئی نشہ نہیں لگایا۔ پٹرول پمپ پر بار بار آ کر جیب خالی کرانا ہی ہمارا نشہ ہے۔ چلو ضد نہ کرو۔ پینتالیس روپے لگا لو۔ ویسے لوگ کیا کہیں گے۔ دس روپے فی لٹر پٹرول والی موٹر سائیکل چلا رہا ہے۔ اتنے سستے پٹرول کی بُو سونگھنے کے لئے شاید کُتے بھی ہماری موٹر سائیکل کا تعاقب نہ کریں۔‘‘
’’دیکھیں! رنگ برنگے موٹر سائیکلوں کی لائن لگ گئی ہے۔ دس روپے فی لٹر آخری دام ہیں۔ وگرنہ کسی اور پٹرول پمپ کا رُخ کریں۔‘‘
’’ہم ناشتہ لینے بازار گئے تو دکاندار سے کہنے لگے۔ بھئی! تمہارا پنکھا یو پی ایس پر چل رہا ہے کیا؟‘‘
’’جناب! آپ کو کچھ خبر نہیں‘ کالاباغ ڈیم بن گیا ہے۔ اب ہر طرف بجلی ہی بجلی ہے۔‘‘
’’یار! ہم نے اپنی زندگی لوڈ شیڈنگ کے مطابق ڈھال لی تھی۔ ہم نے گھڑیاں دیکھنا بند کر دی تھیں۔ ہم بیٹھے بیٹھے پچھلے زمانے کی سیر کر لیتے تھے۔ پرانے زمانے کے بادشاہ بجلی کے بغیر ہی پوری زندگی بسر کرتے تھے۔‘‘
’’جناب! کالاباغ ڈیم بننے سے پوری قوم اندھیروں سے نکل آئی ہے اور آپ عجیب باتیں کر رہے ہیں۔‘‘
’’کالاباغ ڈیم بننے سے کارخانے اور فیکٹریاں چل پڑیں گی۔ یار ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے اور وقت ضائع کرنے کا مزہ ہی کچھ اور تھا۔ کبھی کبھار جلوس نکال لیتے تھے۔ ٹائر جلا لیتے تھے اور ٹرینوں کو آگ وغیرہ لگا لیتے تھے۔‘‘