اس میں وقت کا بہت ضیاع ہوگا اور اس کیلئے بعض حساس پہلوﺅں کا تذکرہ ضروری ہوجائے گا لیکن میں اس منصوبے کے اس پہلو کا ذکر کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس منصوبے میں استعمال ہونے والا سنگ مر مر اٹلی سے درآمد کیاجانا تھا۔
اس سفید سنگ مر مر پر اس غریب قوم کے 90کروڑ روپے صرف کئے جانے تھے۔جب اس منصوبے کے اپنے پہلے دورے دوران میں نے یہ سوال کیا کہ ہمیں اس منصوبے کیلئے سنگ مر مر درآمد کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ تو مجھے جواب ملا کہ ” جناب یہ ایک بہت بلند مینار ہوگا۔ ہم اس کے اوپر یہ سنگ مر مر لگائیںگے اور لوگ دیکھیں گے کہ کس طرح تقسیم کے بعد یہاں پر قافلوں نے پڑاﺅ ڈالا اور یہاں پہ قیام کیا۔“ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا 90کروڑ روپے کی خطیر رقم سے لگائے جانے والے سنگ مرمر سے ہم اس بات کی ترجمانی کراناچاہتے ہیں کہ پاکستان کے عوام بہت خوشحال ہیں؟ کیا یہ سنگ مرمر اس امر کی گواہی دے گا کہ یہاں امیر اور غریب کا فرق مٹ چکا ہے؟ کیا اس سے یہ ثابت ہوگا کہ ہم غربت اور بیروزگاری کے مسائل پر قابو پاچکے ہیں؟ میں نے ان سے کہا کہ آخر ہم اس طرح کے کاموں سے کسے بیوقوف بناناچاہتے ہیں۔ ہمیں اتنی بڑی رقم اوروہ بھی زرمبادلہ میں ضائع کرتے ہوئے شرم آنی چاہئے۔
میرے اس فیصلے کی پوری شدومد کے ساتھ مخالفت کی گئی اور اس وقت کے ڈکٹیٹر کے مقرر کئے ہے کنسلٹنٹ جو جنرل قیوم کا قریبی دوست تھا،نے صاف الفاظ میں کہا کہ ” نہیں جناب چیف منسٹر! یہ بہت ضروری ہے بصورت دیگر اس منصوبے کی خوبصورتی تباہ ہوجائے گی۔“ اس موقع پر مجھے اپنا اختیار استعمال کرنا پڑا۔ تاہم وہ پھر بھی بڑی دیر تک اپنی انا پر اڑے رہے۔آخر کار میں بصد مشکل انہیں پاکستان کے شمالی حصوں میں پائے جانے والے سنگ مرمر کے استعمال پر راضی کرنے میں کامیاب ہوگیا جس کی مالیت 30کروڑ روپے تھی۔میں سمجھتا ہوں کہ آج کے سیمینار کے انعقاد کا واحد مقصد اس ایک مثال میں تلاش کیاجاسکتا ہے۔اصل بات اس ملک کے بارے میں ہمارے طرز احساس کی ہے اور اس سوچ کی ہے کہ ہم نے اس کے وسائل کو اپنی ذاتی ذمہ داری سمجھتے ہوئے اسی طرح سوچ سمجھ کر استعمال کرنا ہے۔ ہم میں سے چاہے کوئی سیکرٹری ہیلتھ ہو، خادم پنجاب ہویا کسی اور منصب پر فائز ہو،اسے سب سے پہلے یہ سوچنا ہوگا کہ آیا بجٹ اس امر کی اجازت دیتا ہے یا نہیں، کیا میں اس سرمایہ کاری کے بہترین نتائج حاصل کرسکوں گا یا نہیں اور یہ کہ اس منصوبے میں قومی وسائل کے ضیاع کا کوئی پہلو تو نہیں اور اگر ہم یہ سب کچھ نہیں کرتے تو پھر ہم نہ صرف اپنے ساتھ بلکہ قوم کے ساتھ بھی بے وفائی کے مرتکب ٹھہرتے۔ میرا خیال ہے کہ آج کی محفل کے شرکاءکو تمام امور پر اسی حوالے سے غورو خوض و بحث مباحثہ کرناچاہئے لیکن آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس امر کو یقینی بنائے کہ اس کا ہر شہری بہترین تعلیم تک رسائی حاصل کرسکے اور پھر دانش سکول سرکار کی طرف سے کی جانے والی اس طرح کی کوئی پہلی کوشش نہیں ہے۔ وفاقی حکومت اسی طرح کی سرمایہ کاری کے ذریعے کیڈٹ کالجوں کی تعمیر کرچکی ہے لیکن وہاںداخلے کا معیار از حد مختلف ہے جبکہ ہم دانش سکولوں میں میرٹ کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان غریب بچوں کو اپنے گلے لگاتے ہیں، جن کا مقدر عموماً گرد آلود گلیوں میں گھومتے اور بے سروسامانی کی حالت میں غلاظت سے اٹی ہوئی جھونپڑیوں میں بے مقصد زندگی گزارنا ہوتا ہے۔میں سمجھتا ہوںکہ پاکستان کا یہی وہ منظر نامہ ہے جو ہماری بنیادی غلطی کی نشاندہی کرتا ہے اور اسی سے ہمیںیہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ جب تک ہم غریب اور امیر کو اپنے خوابوں کی تعمیر کیلئے یکساں مواقع فراہم نہیں کرتے ہم اپنے بوسیدہ نظام کو درست نہیں کرسکتے۔
ہمارے ملک میں امکانات اور صلاحیتوں کی کمی نہیں۔ قدرت نے ہمیں بہترین دماغوں اور وسا ئل سے نوازا ہے۔ ان میں سے بہت سے ابھی تک منظر عام پر نہیں آسکے۔ بہترین صورتحال کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہمیں بیرونی امداد پر انحصار کرنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے۔ میں نے اس بیرونی مدد کی کبھی مخالفت نہیں کی جو ہمیں باعزت طورپر دی جائے لیکن میں یہ امر کیسے فراموش کرسکتا ہوں کہ وہ ممالک جو ہمیں امداد دیتے ہیں انہوں نے ترقی اور خود کفالت کا موجودہ منصب دوسروں کی مدد کے بغیر حاصل کیا ہے۔ یہ کام ناممکن نہیں تاہم اس کیلئے ہمیں اپنے طرز زندگی کو مکمل طورپر تبدیل کرنا ہوگا اور یہ اس وقت ممکن ہے جب ہم باب پاکستان جیسے منصوبوں کیلئے سنگ مرمر برآمد کرنا بند کردیں،جب ہم پیشگی ادائیگیو ں کے نام پر قومی خزانے کی لوٹ مار سے باز آجائیں اورجب اس محتاجی کو ختم کرنے کا فیصلہ کرلیں جو ہمیں بیرونی ممالک سے قرضے اور امداد لینے پر مجبور کرتی ہے۔ یہی وہ طریقہ ہے جس پر چل کر ہم جناحؒ اور اقبالؒ کا پاکستان حاصل کرسکتے ہیں۔
حاضرین کرام! اگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے عوام نے ہمیں دوبارہ منتخب کیا تو ہم ان کی خدمت کا یہ سفر اسی زور و شور سے جاریرکھیںگے۔ جہاں تک بیرونی امداد کا تعلق ہے ہم اسے قبول کرتے ہوئے اپنے عزت نفس کے تقاضوں کو فراموش نہیں کریںگے اور اس امداد کو ذمہ داری کے ساتھ استعمال کریںگے۔میں اس ضمن میں پنجاب سکلز ڈویلپمنٹ فنڈ کی مثال دیناچاہوں گا اس پروگرام نے اپنے سابقہ اور موجودہ چیئر مین کی سربراہی میں قابل تحسین کام کیا ہے۔ یہ پروگرام برطانوی حکومت کے ساتھ مساویانہ مالی شراکت کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ کوئی سیاسی شرط وابستہ نہیں ہے۔ اس کی واحد شرط یہ ہے کہ امداد کی تمام رقوم صحیح انداز میں صرف کی جائیں گی۔ ہم نے برطانیہ کے ٹیکس گزار عوام کے تعاون سے جنوبی پنجاب میں ہزاروں نوجوانوں کو مختلف فنون میں تربیت دی ہے اور اس پروگرام نے پاکستان کے بڑے بڑے تجارتی اداروں کی توجہ اپنی طرف مرکوز کرائی ہے۔یہی وہ راستہ ہے جسے ہم مستقبل کا راستہ قرار دے سکتے ہیں یعنی اپنے نوجوانوں کی صلاحیتوں کو جلا بخش کر انہیں اپنے قدموں پر کھڑا کر کے مقامی اور بیرونی سطح پر روزگار حاصل کرنے کیلئے مدد کی فراہمی، ہمیں اپنے مستقبل کو تاریکیوں کی نذر ہونے سے بچانے کیلئے پوری قوت کے ساتھ بروئے کار لانا ہوگا اور اس کیلئے واحد طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے ملک کی اس 60فیصد آبادی کے مضبوط شانوں پر انحصار کریں جو نوجوان بھی ہے، با صلاحیت بھی اور محب وطن بھی۔ (ختم شد)