لارڈ پالمر سٹون نے برطانوی سلطنت کے عروج کے دنوں میں جو بات کی تھی وہ آنے والی دہائیوں میں امریکی ایمپائر کیلئے بھی سچ لگتی ہے، ہمارا کوئی اندرونی دشمن نہیں اور نہ ہمارا کوئی بیرونی اتحادی اور دوست ہے۔ ہمارے مفادات ازلی اور دائمی ہیں اور ان مفادات کا خیال رکھنا ہمارا فرض ہے۔ پاکستان باقی دنیا کے ساتھ امریکی ایمپائر کے تحت کام کرتا ہے خواہ اسے پسند ہو یا ناپسندہو۔ تاہم اس کیلئے اس طرح کی ایمپائر کے ساتھ کام کرنے کے رولز کا سمجھنا از حد ضروری ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے لئے آپشنز کا تعین کرنا اس کی اپنی محدود پاور پروجیکشن کی روشنی میں اس کی اقتصادی ابتری کی وجہ سے مشکل ہے۔ پاکستان ریاستوں کے ایک ایسے عالمی نظام کا حصہ ہے جس کے قواعد و ضوابط ان طاقتوں نے اپنے لیے خود وضع کر رکھے ہیں۔ ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنا ہو گی کہ 2012ءمیں عالمی سسٹم کا حصہ ہونے کے ناطے امریکی ترجیحات کو سب سے مقدم رکھنا ہو گا۔ اس کے بعد اس کے اتحادی ہیں یا ان طاقتوں کی باری آتی ہے جن کی اپنی خواہش ہوتی ہے کہ کسی دن وہ خود بھی ایک ’شہنشاہ‘ بن جائیں۔ مستقبل کی منصوبہ بندی کیلئے ان طاقتوں کے عزائم مقاصد اور حکمت عملی کو سمجھنا از بس ضروری ہے۔ اکثر پاکستانی سیاستدان اور دانشور دونوں خارجہ پالیسی کے حوالے سے بحث کے دوران رد عمل میں داستان سرائی میں الجھ کر رہ جاتے ہیں اور ایک لمحہ کیلئے بھی توقف کرکے حالات و واقعات کا جائزہ لے کر مستقبل کی پروجیکشن پر غور نہیں کرتے۔ جب تک ہمیں علم نہ ہو گا کہ امریکی خارجہ پالیسی کے مقاصد اور خدوخال کیا ہوں گے، ہم مستقبل کے لئے اپنی حکمت عملی ترتیب نہیں دے سکتے۔ سب سے پہلا اور بڑا سبق جو اس سلسلے میں سمجھنے والا ہے وہ یہ ہے کہ امریکہ ایک بڑی ایمپائز ہے ٹھیک اس طرح جیسی کبھی برطانیہ اور روم کی سلطنتیں تھیں، دوسرا بڑا سبق زیادہ ناقدانہ ہے کہ تمام طاقتیں اپنے مفادات کی خاطر طاقت میں توازن کیلئے کوشاں ہیں تاکہ ان کے دائرہ عمل میں کسی بھی طرف سے اوورپاورنگ کے خدشات اور امکانات کو ختم کیا جا سکے۔ اس قدیم کہاوت کی روشنی میں آئیے دیکھیں کہ امریکہ اپنے مقاصد کے حصول کیلئے دنیا بھر میں کیا اقدامات کرے گا اور طرز عمل اختیار کرے گا۔ امریکیوں کا اپنی ریاست کے بارے اپنا ایک اخلاقی جواز اور خواب ہے۔ یہ دونوں نظریات آج فرسودہ ہو چکے ہیں اور موجودہ دور کی آویزش میں ان کا حصول ممکن نہیں رہا، امریکہ بہادر کے لئے اپنی موجودہ اکنامی کے ساتھ جو دنیا کی اکانومی کا 25فیصد ہے، دوسرے ملکوں کے معاملات میں دخل اندازی کرکے پسپائی اختیار کرنے کے بعد یہ اب اس کے لئے کوئی آپشن نہیں رہا تاہم دنیا کے ہر ملک کے ساتھ امریکہ کے تصادم اور ٹکراﺅ کی کیفیت موجود ہونے کے پیش نظر اس کے لئے اپنی ایمپائر کے سٹیٹس کے حوالے سے اگلے عشرے کے لئے توازن قائم رکھنے کیلئے چند بنیادی نکات پیش نظر رکھنا ہوں گے۔
سب سے پہلے دنیا کی فالٹ لائنز ہیںجو اپنی جغرافیائی حد بندیوں سے باہر بھی اثرات کے حامل ہیں، ان فائٹ لائنز کو سمجھنا ضروری ہے۔ ان میں امریکی حکمت عملی اگلے عشرے کیلئے پاکستان کے لئے اس بات کا تعین کرنے میں مدد گار ثابت ہو گی کہ کس کا ساتھ دینے میں ہمیں عالمی طور پر زیادہ فوائد حاصل ہوں گے، اس وقت پاکستان کو ملنے والا حصہ کچھ زیادہ نہیں۔ اس کی مقدار بہت قلیل ہے۔ حکمران اگر اپنی ترجیحات درست کر لیں تو اگلے عشرے میں یہ صورت حال برقرار نہیں رہے گی۔ امریکہ کا نقطہ کمال اس کی بحریہ ہے جس کی طاقت کے بل بوتے پر اسے عالمی تجارت اور منڈیوں پر برتری اور بالا دستی حاصل ہے۔ پاکستان کا معاشی اور اقتصادی میدان میں اپنی بحریہ پر انحصار ہے جس کے لئے بجٹ مختص کرنا اور اس کی ترقی پر ازسر نو فوکس کرنا ضروری ہے۔ حصے میں امریکہ کے ساتھ اپنی پوزیشن کو زیادہ بہتر اور مستحکم بنا کر خاطر خواہ مفاد اٹھانے کی راہ نکالی جا سکتی ہے۔
مین فالٹ لائن جہاں امریکہ بہادر کو طاقت کا توازن قائم رکھنے میں دلچسپی رہی ہے وہ عرب، اسرائیل، ایران، عراق، برصغیر پاک وہند، روس، یورپ اور چین، ایشیا رہے ہیں، ان فالٹ لائنوں کے درمیان امریکہ نے ہمیشہ مضبوط حریف کھلاڑی کو نظر انداز کرکے اپنا دامن بچاتے ہوئے یہاں طاقت کا توازن قائم رکھنے کی کوشش کی جس نے ہر ایک کو امریکہ کا دست نگر بنا کر امریکہ کو اپنی سلطنت کا بھرم رکھنے کیلئے دخل اندازی کا موقع فراہم کیا اور وہ بھی بہت کم امریکی فوجیوں کی موجودگی میں اس طرح کے منظر نامے میں ایک منتشر ایٹمی قوت پاکستان نے بھارت کو ایک بالا دست پوزیشن پر لا کھڑا کیا جو امریکہ بہادر کی طاقت میں توازن کی حکمت عملی سے مطابقت نہیں رکھتی، افغانستان اور پاکستان کے محاذ پر بھارت زیادہ چیلنج کا حامل نہ سہی لیکن بھارتی بحریہ امریکہ کے لئے بہرحال ایک بڑا چیلنج ثابت ہو سکتی ہے جو امریکہ کیلئے ناقابل برداشت ہے اسے دہشت گردی کے خلاف امریکی حکمت عملی کیلئے کہیں زیادہ بڑا خطرہ قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان اور افغانستان جیسے دو سو ملین منتشر افراد کی آبادی والے ملکوں پر خطے میں طاقت کے توازن کی حکمت عملی کچھ زیادہ مناسب نہیں لگتی تاہم سمجھنے والی بات یہ ہے کہ فالٹ لائن میں سے کسی کے ہاں بھی نہ تو زیادہ بدامنی اور انتشار ہونا چاہیے اور نہ کسی کو زیادہ بالا دست ہونے کا دعویدار، یہ علاقائی اجارہ دار جو امریکی مفادات کے لئے خطرہ بن رہے ہیں، ان کو امریکہ اگلے عشرے میں ڈاﺅن سائز کرے گا۔ پاکستان کو اپنے تنازعات کا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے اور افغانستان، بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کا اس امریکی خطرے کی روشنی میں جائزہ لینا اور ان کا ازسر نو تعین کرنا چاہیے، اسے افغانستان سے امریکی انخلاءکی حکمت عملی میں اپنے تعاون کی اہمیت کا احساس دلانے کیلئے تمام چیلنجوں کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ پاکستان کے لئے تمام ملک دو طرفہ تعلقات کے لئے خصوصی اہمیت اور دلچسپی کے حامل ہیں اور ان میں پاکستان کے پہلے سے اپنے پسندیدہ ملک بھی ہیں جن کے ساتھ لازماً روابط رہنے چاہئیں۔ ان ملکوں کی ایک خاصی طویل فہرست ہے جو آنے والے عشرے میں امریکہ کے لئے خاصے اہم ہوں گے۔ خصوصی تجارتی مفادات کے پیش نظر اور پاکستان کے نقطہ نظر سے ان پر نظر رکھنے سے مستقبل میں ایک اچھی خارجہ پالیسی کی تشکیل میں مدد ملے گی۔
ایران اور ترکی مشرق وسطیٰ کی وہ نئی طاقتیں ہوں گی جو اگلے عشرے میں اسرائیل کے سامنے ہوں گی۔ پاکستان کو ان کے ساتھ اپنے تعلقات کو بڑھاوا دینے کی کوششیں جاری رکھنی چاہئیں۔ سعودی عرب اور افغانستان کے تعلقات پاکستان اور امریکہ کی خارجہ پالیسی پر حسب سابق اثرانداز ہوں گے۔ ایشیا میں کوریا، جاپان، چین، آسٹریلیا اور سنگاپور امریکہ کے نئے طاقت کا توازن قائم رکھنے والے کلیدی ملک ہوں گے۔ پاکستان کو ان میں سے ہر ایک کے ساتھ اپنے اقتصادی رشتوں کو مضبوط بنانا اور مستحکم کرنا ہو گا۔ اسے اپنی پیداوار کی برآمدات کے لئے علاقائی اور خطے کے تناظر میں اپنی حکمت عملی وضع کرنی ہو گی۔ پاکستان کو برازیل کی مثال سامنے رکھتے ہوئے اپنی مصنوعات کی برآمدات تمام خطوں تک بڑھانے اور پھیلانے کے اقدامات کرنا چاہئے۔ یورپ میں برطانیہ، فرانس، جرمنی، پولینڈ اور روس پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ توازن کے اقتدار کے اہم کردار ہوں گے۔ پاکستان کو حالات کا ادراک کرکے ان کے ساتھ اپنے معاملات طے کرنے کی حکمت عملی ترتیب دینی ہو گی۔ وینزویلا، کیوبا، برازیل اور کینیڈا بھی امریکہ کے لئے کچھ کم اہمیت کے حامل نہ ہوں گے۔ پاکستان کو ان میں سے ہر ایک کے ساتھ تجارتی روابط قائم کرنے کی لازماً کوشش کرنی چاہئے۔ افریقی ملک امریکہ کے لئے زیادہ مسئلہ نہیں ہوں گے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ تیل کی قدرتی دولت سے مالامال مسلمان ملک امریکہ اور پاکستان دونوں کی یکساں توجہ کے حامل ہوں گے۔ پاکستان کے پاس اپنے ہاں وسائل کی کمی نہیں۔ ضرورت غیر ملکی قرضوں کے جال سے نکل کر ان کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے پاکستان کو فوری طور پر دوبارہ سارے ملکوں سے اپنے تعلقات کا جائزہ لے کر انہیں ازسرنو استوار کرنے اور مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ مضمون میں جن ملکوں کا تذکرہ ہے پاکستان کو صرف انہی ملکوں سے اپنے سیاسی اور تجارتی تعلقات کو مضبوط بنانا چاہئے بلکہ ہر وہ ملک جو کسی نہ کسی حوالے سے پاکستان کے لئے کوئی اہمیت رکھتا ہے اس کے ساتھ تعلقات اور روابط ہونے چاہئیں۔ متذکرہ ملک آنے والے عشرے میں توازن اقتدار کی امریکی حکمت عملی میں اہم کردار کے حامل ملک ہوں گے اس لئے دانش مندی کا تقاضا ہے کہ پاکستان اپنے اقتصادی مفادات کے لئے ان کے ساتھ رابطہ رکھے اور سیاسی طور پر بھی ان کے ساتھ جڑا رہے تاکہ وہ ناکام ریاست کے اس جال میں پھنسنے سے محفوظ رہے جو بڑی تیزی سے اس کے گرد بنا جا رہا ہے۔