لاہور (بی بی سی) پنجاب حکومت نے خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم کے اعداد وشمار اور معلومات اکٹھی کرنے کا منصوبہ تیار کر لیا جس کے تحت ابتدائی طور پر خواتین پر ہونے والے تیزاب حملوں گھریلو اور صنفی تشدد سے متعلق اعداد وشمار اور معلومات اکٹھی کی جائیں گی۔خواتین کی ترقی کے محکمے کی سیکریٹری ارم بخاری کا کہنا ہے کہ حکومت نے خواتین کے لیے اصلاحات کا ایک مربوط پروگرام شروع کیا ہے۔ ریجنلپولیس افسروں کو یہ خط لکھے گئے ہیں کہ وہ یہ اعدادوشمار اکٹھے کریں۔’مقصد یہ ہے کہ ہمیں خواتین کے خلاف جرائم سے متعلق رجحانات کا بہتر اندازہ ہو سکے۔ خواتین پر ہونے والے تشدد سے متعلق اعدادوشمار کے حصول کے لیے پہلے کوئی بہت مستند ذریعہ موجود نہیں۔ پنجاب یونیورسٹی میں صنفی علوم کی اسسٹنٹ پرفیسر ڈاکٹر رعنا ملک سمجھتی ہیں درست اعدادوشمار کا نہ ہونا خواتین کے خلاف جرائم پر قابو پانے میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔’خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے لیے پہلی سیڑھی مستند اعدادوشمار کی موجودگی ہے۔ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے اس منصوبے کے حوالے سے کئی خدشات رکھتے ہیں۔ عورت فاونڈیشن کی صوبائی رابطہ کار ممتاز مغل کہتی ہیں کہ اعداد وشمار کے حصول کے لیے پولیس پر انحصار کرنا درست حکمت عملی نہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس منصوبے کو کامیاب بنانے کے لیے خواتین کے خلاف جرائم سے متعلق پولیس کے رویے کو بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ممتاز مغل کے مطابق’گھریلو تشدد کے بہت سے کیس تو پہلے پولیس تک جاتے ہی نہیں۔ اور اگر چلے بھی جائیں تو چونکہ گھریلو تشدد کو جرائم میں شامل ہی نہیں کیا گیا اس لیے پولیس اسے سنجیدگی سے نہیں لیتی۔سالانہ رپورٹ میں خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم کی نوعیت جائے وقوعہ جرم میں شامل افراد کی تعداد سمیت تمام معلومات درج کی جائیں گی۔