باتیں ان کی یاد رہیں گی

بچپن سے نوائے وقیتہ ہونے کا شرف حاصل ہے اس لحاظ سے نظامی صاحب سے ایک عقیدت کا رشتہ عرصہ دراز سے قائم تھا۔ جب سالہا سال باغ جناح میں صبح کی سیر میں ان سے ملاقات کا موقع ملا تو ان سے عقیدت کے علاوہ دوستی نہ سہی، ایک تعلق قائم ہو گیا جو ساری زندگی قائم رہا۔ نوائے وقیتہ ہونے کی بے شمار وجوہات میں سب سے بڑی وجہ اخبار کے ایڈیٹوریل صفحہ کی پیشانی پر تحریر کردہ حدیث مبارکہ ہے کہ ”بہترین جہاد جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے“ جس پر جناب مجید نظامی نے پوری طرح عمل کرکے دکھایا۔ ضیاالحق ہو یا پرویزمشرف کسی کا لحاظ نہ کیا اور میٹنگ میں سب کے سامنے اور آمروں کے منہ پر برملا اپنا موقف بیان کیا اور اس پر قائم رہے اور مالی نقصان کی کبھی پروا نہ کی۔
میں نے ان کو ایک اخبار نویس کی حیثیت سے ہمیشہ حق گوئی و بے باکی کا عملی نمونہ پایا۔ نہ کبھی جھکے اور نہ بکے۔ ایک آزادانہ پالیسی اختیار کی اور ہمیشہ اس پر قائم رہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اپنے ایڈیٹوریل سٹاف سے رائے کے باوجود ان کی تحریروں کو اپنے اخبار میں چھپنے دیا اور کبھی اس پر معترض نہ ہوئے۔
میں نے ان کی طرح پاکستان میں دو قومی نظریہ کی حمایت میں ڈٹ جانے والے بہت کم لوگ دیکھے ہیں نظریہ پاکستان ٹرسٹ اور ان کے قائم کردہ دوسرے ادارے اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ انہوں نے نہ صرف ان کو قائم کیا بلکہ ساری زندگی ان کی سرپرستی کرتے رہے اور ہم جیسے معمولی لوگوں کو بھی ان کے اجلاسوں میں شرکت کی دعوت دیتے رہے۔ واپسی پر جناب شاہدرشید اور سیف اللہ ودیگر صاحبان کو اشارہ سے حکم فرمایا کرتے کہ ان کو چائے وغیرہ پلا کر بھیجیں۔
اس عمر میں بھی ان کی جوشیلی تقریریں اب بھی میرے کانوں میں گونجتی ہیں۔ ان کی تقریر سننے کے بعد ہر پاکستانی کا جذبہ حب الوطنی بڑھ جاتا تھا۔ ان کی ہمیشہ پختہ رائے رہی کہ ہندوستان کبھی پاکستان کا دوست نہیں ہو سکتا۔ ان کا درست خیال تھا کہ ہندوستان سے دوستی کی صورت میں تقسیم کی لکیر مدہم ہوتی نظر آتی ہے۔ دریاﺅں کے پانی کے مسئلہ پر بھی انہوں نے ہمیشہ سخت الفاظ میں احتجاج کیا اور واشگاف الفاظ میں حکومت وقت کو متنبہ کیا کہ ہندو بنیا پاکستان کی زرخیز زمین کو بنجر اور بے آباد کرنے پر تلا ہوا ہے۔ بطور انسان جناب مجید نظامی بہترین صفات کے حامل تھے۔ سوچتا ہوں کس کا ذکر پہلے کروں اور کس کا بعد میں۔ صاف گو، سچے کھرے، تصنع اور بناوٹ سے پاک۔ صاحب اخلاق وکردار، مروت اور رواداری کے قائل۔ اپنی رائے کا برملا اظہار کرنے والے۔ مصلحت اندیشی سے عاری۔ ثابت قدم اور مضبوط قوت ارادی کے مالک۔ بہت اچھے منتظم اور ماتحت پرور۔
ہر عید یا تہوار پر میں اور میرا ایک دوست سیر کا ساتھی ان کے دولت خانہ پر ضرور حاضر ہو جاتے تھے۔ ان کی منکسرالمزاجی، وضع داری، خاطر مدارت، پیار ومحبت اور حسن سلوک سے متاثر ہوئے بغیر بندہ رہ نہیں سکتا تھا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ خلا دوستوں کی زندگی میں اب تک پر نہیں ہو سکا۔ کبھی کبھی دفتر میں بھی حاضری ہوتی تو ہمیشہ فرماتے کہ لکھا کریں میں وقت کی قلت کا ذکر کرتا تو فرماتے ہر روز نہ سہی۔ کبھی کبھی مگر لکھیں ضرور۔ رحلت فرمانے سے پہلے ایک عید پر جب ان کے دردولت پر حاضری دی۔ تو میں نے عرض کیا کہ جناب ہمارے حکمران آپکے زیراثر ہیں ان کو سمجھائیں کہ ہندوستان کے ساتھ تعلقات میں احتیاط برتیں اور ملکی مفاد کا خیال رکھیں تو انہوں نے بہ کمال مہربانی مجھ پر بہت ساری باتوں کا انکشاف کیا جن کی قومی اور بین الاقوامی حیثیت کے پیش نظر ان کا ذکر کرنا شاید مناسب نہ ہو۔ اس سے دو باتیں واضح ہوئیں کہ ایک یہ کہ جناب نظامی صاحب ملکی مفاد کو ذاتی تعلقات پر ترجیح دیتے تھے اور دوسری یہ کہ بہت بڑی سطح پر بھی اسکے نتائج کی بالکل پروا نہیں کرتے تھے۔
صحافت کے میدان میں بھی یکتائے روزگار تھے اور اس میں بڑا نام کمایا اور ”آبروئے صحافت“ کا لقب پایا۔ پنجاب یونیوزسٹی نے میدان صحافت میں ان کی بے مثال خدمات اور صلاحیتوں کے اعتراف میں ان کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی۔ لارنس روڈ لاہور کے ساتھ والی سڑک کو ”مجیدنظامی روڈ“ کے نام سے منسوب کیا گیا۔

ای پیپر دی نیشن