نوائے وقت گروپ کے روح رواں اور 21 ویں صدی کی ایک تاریخ ساز ہستی مرحوم ڈاکٹر مجید نظامیؒ کی ذات کو لفظوں میں سمیٹنا کم از کم میرے اختیار میں نہیں کیونکہ میں نے ان کے ساتھ چار سال سے ذرا زیادہ عرصہ تک ہی قریب رہ کر کام کیا ہے جسے میں اپنے لئے ایک اثاثہ تصور کرتا ہوں۔ میں آج بھی یہ فیصلہ نہیں کر پایا کہ وہ ایک بڑے پایہ کے صحافی تھے یا ایک عظیم انسان۔ وہ زندگی بھر علامہ اقبال کے مرد مومن کی زندہ مثال بن کر رہے۔ ان کی جرأت‘ دلیری اور تدبر کے تو ان کے دشمن بھی قائل تھے۔ اپنی طبیعت کے اعتبار سے وہ سنجیدہ صفت اور متین انسان تھے مگر ان کی حس مزاح بھی کسی سے کم نہ تھی۔ مجید نظامی زندگی بھر علامہ اقبال اور قائداعظم محمد علی جناح کے اقوال اور اعمال کے پیروکار رہے اور حقیقی معنوں میں مرد درویش کی مثال بنے رہے۔ وہ اقبال کے اس شعر کی تفسیر بھی تھے؎
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
اپنے اسی کردار کی وجہ سے انہوں نے ایوب خان‘ ضیاء الحق اور پرویز مشرف جیسے فوجی ڈکٹیٹروں سے ٹکر لی اور ترکی بہ ترکی جواب دیکر ان کی طرف سے ملنے والی دھمکیوں کے خلاف ان کے سامنے آواز بلند کی۔ ان کے اس نعرہ مستانہ کے سے انداز کے بھی ان کے دوست اور دشمن قائل ہیں۔ ملک کی تاریخ کے ان تین بڑے فوجی ڈکٹیٹروں نے متعدد حربے استعمال کرکے مجید نظامی اور نوائے وقت کو اپنا ۔ حامی بنانے کی کئی بار کوشش کی مگر انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اشتہاروں کی بندش اور اخباری کاغذ کے پرمٹ کی منسوخی نے انہیں کبھی متزلزل نہیں کیا۔ یہ پابندیاں اکثر مہینوں اور کبھی کبھی سالوں پر محیط ہوتی تھیں۔ ان سب پریشرز کو برداشت کرنا اور حق گوئی کا راستہ نہ چھوڑنا یہ تھا وہ رویہ جس نے مجید نظامی کو اپنے دور کی قد آور شخصیات میں نمایاں مقام دلایا۔ انہوں نے اپنے بڑے بھائی حمید نظامی مرحوم سے جو عہد کیا تھا کہ وہ نوائے وقت کا علم بلند رکھیں گے اسے نہ صرف پورا کیا بلکہ اسے ملک بھر کا مضبوط ترین میڈیا گروپ بنا کر یہ بھی ثابت کر دیا کہ ان پر جو اعتماد کیا گیا تھا‘ وہی اس کے مستحق تھے۔ مجید نظامی حصول تعلیم کیلئے اپنے عہد شباب میں برطانیہ گئے تھے۔ ایک روز ایڈیٹوریل میٹنگ کے دوران میں نے ان سے درخواست کی کہ وہ ہمیں اپنے وہاں قیام کے رنگین واقعات سنائیں۔ نظامی صاحب کے ہونٹوں پر گہری مسکراہٹ چھا گئی اور وہ یوں گویا ہوئے ’’یہ لمبی بات ہے اور اس کیلئے دفتر مناسب جگہ نہیں۔آپ سب لوگ اس کیلئے گھر تشریف لائیں۔‘‘ یہ ان کی شفقت تھی کہ اتنے ذاتی سوال کا جواب بھی انہوں نے اتنے دلنشین انداز میں دیا۔ جس بات نے مجھے ان کی جرأت و بے باکی کے بعد سب سے زیادہ متاثر کیا‘ وہ ان کی خوش لباسی تھی۔ جناح کے بعد بھٹو اور ان کے بعد مجید نظامی سے زیادہ خوش لباس شخص میں نے نہیں دیکھا۔ ان کے لباس کے رنگوں کا امتزاج ‘ ان کی کلائی پر بندھی گھڑی اور ان کے جوتوں کا سٹائل لاجواب تھا جس کیلئے ان کے اپنے حسن انتخاب کے علاوہ ان کی بیگم اور بیٹی کو کریڈٹ جاتا ہے۔ ان کی ایک اور پہچان یہ تھی کہ وہ خود بھی ڈسپلن کے پابند رہتے تھے اور دوسروں سے بھی اس کی پابندی پر اصرار کرتے تھے۔ دفتری معاملات میں تو وہ سختی سے اس پر عملدرآمد کے متقاضی رہتے تھے۔ مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ان کے سینے میں ایک دردمند دل نہیں تھا۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ایک مرتبہ سنڈے پلس میگزین میں ایک ایسا اشتہار چھپ گیا جو نوائے وقت کی پالیسی سے میل نہیں کھاتا تھا۔ انہوں نے مارکیٹنگ کے اس اہلکار کو جو یہ اشتہار لیکر آیا تھا اور میگزین کے انچارچ کو نوکری سے فارغ کرنے کے احکامات جاری کر دیئے۔ یہ دونوں کارکن میرے پاس آئے اور اپنی کتھا بیان کی۔ میں نے وہ میگزین پکڑا اور میں نظامی صاحب کے دفتر میں داخل ہوا۔ بن بلائے کسی کے دفتر میں داخل ہونے پر ان کا پہلا سوال ہوتا ’’خیریت تو ہے‘‘ میں نے عرض کیا نظامی صاحب اپنی نااہلی کا اقرار کرنے آیا ہوں۔ یہ اشتہار میں نے دیکھا تھا مگر میں نے نوٹس نہیں لیا۔ لہٰذا مجھے بھی اس کی سزا ملنی چاہئے۔ ان بچوں کا بھی یہی قصور ہے انہوں نے اس کی نشاندہی نہیں کرائی۔ نظامی صاحب نے کہا کہ دیکھ لیں ان کی غلطی تو معاف ہو جائے گی مگر آپ کی کوتاہی پر آپ کو سخت ترین وارننگ جاری ہوگی جو آپ کی ذاتی فائل میں لگ جائے گی۔ میری رضامندی پر نظامی صاحب نے ان دونوں کونوکری پر تو بحال کردیا مگر میرے نام پر وارننگ جاری کروائی جو آج بھی میرے ریکارڈ کا حصہ ہے۔ اس واقعے سے ان کی نرم دلی اور اصول پسندی دونوں کا بھرپور اظہار ہوتا ہے۔ میرا نوائے وقت گروپ جوائن کرنا بھی بہت دلچسپ واقعہ ہے۔ میں 28 سال کی عمر میں انگریزی اخبار دی سن کا 1974ء میں ریذیڈنٹ ایڈیٹر مقرر ہو گیا تھا اور 21 سال کا عرصہ میں نے جنگ گروپ کے ساتھ مختلف حیثیتوں میں کام کیا اور وہ گروپ چھوڑتے وقت میں دی نیوز کا سینئر ترین ایڈیٹر تھا۔ جب میں نے وہ گروپ چھوڑا تو ایک مرتبہ لاہور سے اسلام آباد جاتے ہوئے میں اور نظامی صاحب ایک فلائٹ پر تھے۔ نظامی صاحب نے مجھے کہا ’’سنا ہے اپنے محبوب سے آپ کی علیحدگی ہو گئی ہے۔ اب تو آپ سے بات ہو سکتی ہے۔‘‘ میں نے انتہائی ادب سے اثبات میں سر ہلا دیا جس کا جواب انہوں نے بھرپور مسکراہٹ سے دیا۔ کئی روز بعد نوائے وقت کے اس وقت کے سی او او اور اب ڈائریکٹر فنانس اعظم بدر تشریف لائے اور کہا کہ نظامی صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں اور یوں اگلے روز میں نظامی صاحب کے روبرو بیٹھا تھا۔ انہوں نے کہا کہ میں آپ کو تین باتیں بتانا چاہتا ہوں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ میں بھارت کا دشمن ہوں۔ ابھی وہ دوسری بات کہنے ہی والے تھے کہ میں نے کہا جو بھارت کا دشمن نہیں وہ پاکستانی کیسے ہو سکتا ہے۔ یہ سن کر انہوں نے اپنے سامنے بیٹھے اعظم بدر سے کہا کہ انہیں ان کے کمرے میں لے جائیں۔ اتنا مختصر تھا یہ انٹرویو جس میں دی نیشن جیسے اخبار کے ایڈیٹر کا تقرر ہونا تھا۔ نظامی صاحب کے فیصلے اتنے ہی فوری اور بروقت ہوتے تھے۔ اب ذراعالمی سطح پران کے کردار پر نظر ڈال لیتے ہیں۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے قیام سے ان کی پاکستانیت پرکسی سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں۔ انہیں دو قومی نظریہ کا محافظ بھی قرار دیا جاتا ہے۔ لہٰذا کشمیر کے ذکر کیلئے ان کی خدمات کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ نوائے وقت گروپ کے اس حوالے سے عزم پر کوئی سوال اٹھایا نہیں جا سکتا۔ کشمیری مجاہدین کی مدد کا سوال ہو یا مقبوضہ کشمیر سے ہجرت کرنے والوں کی کفالت‘ مجید نظامی ہراول دستے کی قیادت کرتے نظرآتے تھے۔ اس حوالے سے کئی فنڈز انہوں نے قائم کئے جو آج بھی جاری ہیں۔ اسی طرح بنگلہ دیش میں محصور پاکستانیوں کی بحفاظت واپسی اور بحالی کیلئے ان کی کوششیں اور محنت کسی سے مخفی نہیں۔ فلسطینی مہاجر ہوں یا روہنگیا کے معصوم و لاوارث مسلمان نظامی مرحوم ان کے درد سے بے چین رہتے تھے۔ نوائے وقت گروپ میں نظامی صاحب آج بھی زندہ ہیں کیونکہ ان کی پالیسیوں پر آج بھی اسی شدومد سے کام ہو رہا ہے جیسے ان کی حیات میںتھا …ع
رب مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا