محترم نظامی صاحب کی یاد میں

Jul 26, 2017

ڈاکٹر تنویر حسین

کتنے خوش بخت ہیں وہ لوگ جنہیں اہل دنیا ان کے رخصت ہو جانے کے بعد بھی اپنے دل کی دھڑکنوں میں یاد رکھتی ہے۔ مجید نظامی جنت مکانی خلد آشیانی ایسی ہی خوش بخت شخصیات میں سے تھے۔ کوئی مجید نظامی صاحب کو محسن صحافت کہتا ہے کوئی آفتاب صحافت، کوئی آبروئے صحافت، کوئی امام صحافت ، کوئی عہد ساز شخصیت، کوئی مجاہد صحافت، اور کوئی محافظ نظریہ پاکستان کہتا ہے۔
روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ میں مجھے کام لکھتے ہوئے کم و بیش بیس سال گزر چکے ہیں۔ ان بیس برسوں میں صحافت کے ساتھ میرے عشق کی کہانی بند ہے۔ جب میں نے نیا نیا ایم اے انگلش کیا تو پاکستان ٹائمز میں چھوٹے چھوٹے مضامین لکھنے شروع کر دئیے۔ پھر کچھ کہانیاں اور مضمون روزنامہ ’’امروز‘‘ میں بھی شائع ہوئے۔ اس کے بعد ایک آدھ رسالے اور اخبار میں لکھنے کے بعد روزنامہ ’’مشرق‘‘ میں مضامین بھیجنے شروع کر دئیے۔ میرا میلان طبع مزاح نویسی کی طرف تھا۔ روزنامہ ’’مشرق‘‘ میں میرے طنزیہ و مزاحیہ مضامین میگزین میں شائع ہوئے تھے۔ اس ادارت صاحب مطالعہ اور ذہین ایڈیٹر محترم رؤف ظفر صاحب فرماتے تھے۔ رؤف صاحب میرے مضامین بڑے اہتمام سے شائع کرتے تھے اور کبھی یہ احساس نہیں دلاتے تھے کہ تم مفت میں چھپ رہے ہو۔
میری پہلی کتاب ’’مزاج بخیر‘‘ نے روزنامہ ’’مشرق‘‘ کے میگزین کے اوراق سے جنم لیا اس کتاب کے کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ اس کا نیا ایڈیشن بھی متوقع ہے۔ یہاں سے مجھے ادارتی صفحے پر کالم کھنے کا شوق چرایا اور میں اخبار ’’جہاں نما‘‘ سے ہوتا ہوا محترم و مکرم جناب جمیل اطہر صاحب کے مؤقر اخبار روزنامہ ’’جرأت‘‘ میں آ گیا۔ جمیل اطہر صاحب نظامی صاحب کے ساتھ اے پی این ایس کے مختلف عہدوں پر بھی رہے ان کی زبانی مجید نظامی مرحوم و مغفور کی دبنگ سچی، اور کھری شخصیت کے مختلف گوشے مجھ پروا ہوئے جمیل اطہر صاحب نے مختلف کتابیں بھی تصنیف کی ہیں۔ صحافت کی یادداشتوں کے حوالے سے ان کی کتاب میں مجید نظامی ایک صحافت کے درخشندہ ستارے کی طرح چمکتے نظر آتے ہیں۔
جمیل اطہر صاحب میرا کالم پڑھتے اور اپنی نگاہ صحافت سے اس کے اسقام دور کرتے اور اپنے فرزند ارجمند جناب عرفان اطہر قاضی صاحب کو شائع کرنے کے لئے بھجوا دئیے۔ جب کالم شائع ہوتا تو ایک عجیب سی ناقابل بیان مسرت حاصل ہوتی۔ اس وقت جب نوائے وقت میں جناب عطاء الحق قاسمی اور نذیر ناجی صاحب پروفیسر محمد سلیم (مرحوم) (سرراہے والے) کے علاوہ ایسے ایسے نامور صاحب اسلوب کالم نگار کالم لکھتے تھے کہ ’’نوائے وقت‘‘ کے شکوہ ہی سے خوف آتا تھا۔ مجید نظامی صاحب کے خادم خاص محمد منیر سے میری یاداللہ اس وقت سے تھی جب والد گرامی ’’نوائے وقت‘‘ کے پہلے دفتر کے بالمقابل ’’ہلال احمر‘‘ میں ملازم تھے۔ منیر احمد صاحب کو جب بھی دیکھا، نظامی صاحب کے دفتر میں آتے جاتے دیکھا۔ منیر احمد صاحب کو ہم نے فنا فی النظامی دیکھا۔ پھر دفتر ’’نوائے وقت‘‘ کے اتنے خیر خواہ کہ سارے دفتر کے ملازمین کو اپنے اپنے کاموں کی طرف توجہ دلاتے۔
منیر احمد اب بھی اس طرح مستعد بیٹھتے ہیں کہ جیسے نظامی صاحب گھنٹی دیں گے اور یہ اپنی جگہ سے فوراً حکم سننے جائیں گے۔ ایک زمانہ تھا کہ ہر کس و ناکس ایڈیٹوریل کے کمرے میں نہیں جا سکتا تھا۔ یہ حکم صرف اس لئے صادر فرمایا گیا تھا کہ ایڈیٹر حضرات سکون سے کام کر سکیں۔ نظامی صاحب سے ملاقات کو جی چاہتا تو پی اے کے کمرے میں بڑے بڑے وزیروں، مشیروں اور دیگر اہم شخصیات کے کارڈ پڑے ہوتے۔ دفتر میں نظامی صاحب سے گنتی کی ملاقاتیں ہی ہو سکیں۔ ان کی وفات سے ایک ڈیڑھ ماہ قبل میں لفٹ کا منتظر کھڑا تھا، لفٹ کھلی تو اندر سے نظامی صاحب دکھائی دیئے۔ میں نے ادب سے ہاتھ ملایا تو ان کے ہاتھ کی گرفت سے محسوس ہوا کہ ابھی تو وہ جوان ہیں۔
’’نوائے وقت‘‘ کے ایڈیٹوریل میں کالم دینے جاتا تو ان کی بڑی تصویر نظر آتی۔ ہم سب یہی محسوس کرتے ہیں کہ نظامی صاحب ہمیں دیکھ رہے ہیں۔ ویسے بھی ایڈیٹوریل کے سامنے ان کا دفتر تھا، جہاں سے ان کے احکامات پر مشتمل کالم، خطوط، چٹیں اور دیگر کاغذات ان کی قربت کا احساس دلاتے رہتے۔ نظامی صاحب پاکستان کو صحیح معنوں میں قائداعظم اور علامہ اقبال کے افکار و خیالات کے مطابق دیکھنا چاہتے تھے۔ مجید نظامی مرحوم جب کوئی بات کرتے، ملک و ملت کے فائدے کے لئے کرتے۔ نہتے کشمیریوں کے لئے وہ فنڈز اکٹھا کرتے، آزادیٔ کشمیر کی بات کرتے، مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرتے، کالاباغ تعمیر کرنے کی مہم انہوں نے اپنے مؤقر اخبار میں چلائی۔
مسلم لیگ کے رہنمائوں کو قائداعظم کے نقش قدم پر چلنے کی تلقین کرتے اور جب ایٹمی دھماکہ کرنے کا وقت آیا تو نواز شریف صاحب کو بھرے مجمع میں کہہ دیا کہ نواز شریف صاحب دھماکہ کر دیں، نہیں تو قوم آپ کا دھماکہ کردے گی ۔ نظامی صاحب حکمرانوں کے خلاف سخت سے سخت کالم بھی نہیں روکتے تھے۔ آمروں سے ان کا اِٹ کھڑکا رہا۔ ’’نوائے وقت‘‘ ہمیشہ سے جمہوریت کا علمبردار رہا۔ نظامی صاحب نے آزادیٔ صحافت کی ایسی داستان رقم کی ہے کہ باید و شاید۔ وہ صحافت کا عظیم اثاثہ تھے۔ ایسی جلیل القدر اور قدآور شخصیات کی کمی ہر دور میں محسوس کی جاتی ہے۔ آج ان کے جانے کے بعد ان کے چاہنے والے انہیں یاد کرتے ہیں تو ان کے اعلیٰ کردار، پاکستان اور اس کے غریب عوام سے شدید محبت کی وجہ سے یاد کررہے ہیں۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ (آمین)

مزیدخبریں