جب تک میں زندہ ہوں

مجید نظامی ایک شخصیت کا نہیں ایک عہد کا نام تھا۔ایک تابناک عہد۔ وہ اس شعر کی عملی تفسیر تھے
ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
دوستوں کے حلقے میں ان کی شگفتہ مزاجی محفل کو زعفران زار بنا دیتی تھی وہ باتوں باتوں میں ایسی شگفتہ بات کر جاتے تھے کہ حیرت ہوتی تھی بظاہر اس قدر سنجیدہ شخص باتوں سے کیسے مزاح کشید کر لیتا ہے۔ ان کے چہرے پر متانت اور ہونٹوں پر مسکراہٹ رہتی تھی میں نے انہیں کبھی قہقہہ لگاتے ہوئے نہیں دیکھا وہ مسکراتے تھے یا کبھی ہنستے تھے لیکن بلند آواز سے قہقہہ کبھی نہیں لگایا ان کا رعب اور بردباری انکی شخصیت کا خاصہ تھی وہ آمریت کے ہمیشہ خلاف رہے۔ انہوں نے آمروں کے سامنے ہمیشہ حق کی بات کی خواہ انہیں کتنی ہی ناگوار گزرے ایسے کئی واقعات آپ پڑھ چکے ہوں گے۔
’’نوائے وقت‘‘ میں کام کرنا میری دیرینہ خواہش تھی والد صاحب اور دونوں بھائی لوہے کا کاروبار کر رہے تھے۔ مجھے دکان پر فیکٹری میں کئی مرتبہ لے گئے سال دو سال کام کرتا لیکن پھر دل اچاٹ ہو جاتا کبھی کسی اخبار، کبھی کسی رسالے میں کام کرتا۔ ایک مرتبہ مجید نظامی صاحب کو درخواست بھجوائی کہ نوائے وقت میں کام کرنا چاہتا ہوں تب بی اے کر رہا تھا۔ نظامی صاحب نے کمال شفقت سے خط کا جواب دیا اور لکھا کہ ابھی آپ اپنی تعلیم پر توجہ دیں تعلیم مکمل کر لیں تو پھر رابطہ کریں۔ آپ کو ضرور موقع دیا جائے گا مجھے خوشگوار حیرت ہوئی۔ روزانہ کتنے خطوط ان کو ملتے ہوں گے ان کی طرف سے جاب نہ سہی جواب ملنا بھی اپنے لیے اعزاز سمجھا ۔پھر بچوں کے ادب کی طرف ہی رجحان ہو گیا۔ ایک دوست کے بچوں کے رسالے میں بطور ایڈیٹر کام کررہا تھا یہ رسالہ ملک بھر کے بچوں کے رسائل کے سالانہ مقابلے میں تین سال تک اول اور دوم آتا رہا۔
جب ’’پھول‘‘ کی ادارت کی اسامی خالی ہوئی تو میرے دوست نے مجھے بتائے بغیر مجید نظامی صاحب کو میرے بارے میں خط لکھ دیا ان کو نظامی صاحب کا فون آیا کہ کل صبح 10 بجے ان کو لے کر دفتر آجائیں۔ انہوں نے میری ادارت میں شائع ہونے والے میگزین دیکھے صرف پانچ منٹ باتیں کیں کچھ ہدایات دیں جن پر آج بھی عمل پیرا ہوں۔ انہوں نے پی اے صاحب کو بلا کر کہا کہ کل یہ آئیں گے ان کو ’’پھول‘‘ کے ایڈیٹر کی سیٹ پر بٹھا دیں۔ یوں ایک دیرینہ خواب کو تعبیر ملی۔ آج چودہ سال ہو گئے ان کے ادارے سے وابستہ ہوئے ان سے جب بھی کوئی درخواست کی انہوں نے ہمیشہ شفقت فرمائی یہ سلسلہ ان کی وفات کے بعد بھی جاری ہے۔ آج محترمہ رمیزہ نظامی صاحبہ ان کے مشن کو اُسی طرح جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ’’پھول‘‘ کے حوالے سے جب بھی انہیں کوئی درخواست بھجوائی جاتی ہے وہ منظور فرماتی ہیں۔
’’نوائے وقت‘‘ میں کالم لکھنے کا شوق بھی پرانا تھا۔ ایک مرتبہ ڈرتے ڈرتے ایک کالم لکھ کر مجید نظامی صاحب کو بھجوایا۔ انہوں نے پھر خوش اور حیران کردیا نہ صرف کالم اشاعت کے لئے بھجوایا بلکہ لکھا کہ کبھی کبھی کالم لکھ کر بھجوا دیا کریں یہ میرے لیے ایک اور اعزاز کی بات تھی۔ اس کے بعد جب بھی ان کو کالم بھجوایا انہوں نے ضرور شائع کیا سوائے ایک کالم کے اس کالم میں میں نے دو سیاستدانوں کے حوالے سے کچھ سخت بلکہ کچھ غیر اخلاقی سے کلمات لکھے تھے۔ نظامی صاحب نے وہ کالم مجھے واپس بھجوادیا میں سمجھ گیا کہ وہ میری تربیت کر رہے ہیں کہ ہمیں باوقار صحافت کرنی چاہئے اور اخلاق کا دامن کبھی نہیں چھوڑنا چاہئے۔
کوئی تحریر ناقابل اشاعت ہوتی تو ’’معذرت‘‘ کا لفظ لکھ کر واپس بھجوا دیتے۔ یہ ان کا بڑا پن تھا۔یوم اقبالؒ پر بھی ایوان اقبال میں کوئی تقریب نہ ہونے اور اقبال اکیڈمی کی کچھ بے ضابطگیوں کے حوالے سے ایک مضمون سنڈے میگزین میں لکھا۔ وہ مضمون پڑھ کر نظامی صاحب نے مجھے طلب کیا میں ڈر گیا کہ شایدکچھ غلط ہو گیا ہے۔ انہوں نے مجھے بٹھایا، چائے منگوائی اور تقریباً ایک گھنٹے تک ایوان اقبال کی تعمیر میں اپنی کوششوں، رفقاء کی بے وفائیوں اور پھر اس پراجیکٹ سے اپنی علیحدگی کی تفصیلات بتائیں یہ بھی کہا کہ اقبال اکیڈمی کو ایوان اقبال میں دفتر کے لئے جگہ دی گئی تھی لیکن یہ آگ لینے آئی اور گھر والی بن بیٹھی کے مصداق ایوان اقبال پر ہی قابض ہو گئی۔
میرے لیے اتنی دیر ان کے پاس بیٹھنا اور انکی گفتگو سننا بھی اعزاز تھا ۔وہ چاہتے تھے کہ ان کے ادارے کے صحافی کسی موضوع پر قلم اٹھائیں تو ان کے پاس زیادہ سے زیادہ معلومات ہوں۔
ماہنامہ ’’پھول‘‘ کا اجراء ان کی دوراندیشی کا آئینہ دار ہے وہ چاہتے تھے کہ نئی نسل کی اسلام اور نظریہ پاکستان کے تقاضوں کے مطابق تربیت اور کردار سازی کی جائے۔ وہ تقریبات میں بہت کم جاتے تھے لیکن ’’پھول‘‘ کی تقریبات میں تشریف لاتے بچوں سے باتیں کرتے، ان کو اکثر سو سو وپے آئس کریم کے لئے دیتے ایک مرتبہ میں نے کہا کہ میں بھی آپ کے لئے بچہ ہی ہوں تو مسکرا کر سو روپے کا نیا نوٹ مجھے بھی دیا میں نے اس پر ان کے دستخط کروائے جو آج بھی میرے پاس محفوظ ہے باتیں بہت ہیں یادیں بہت ہیں ان کی یادوں پر مشتمل پر عائشہ مسعود کی مرتب کردہ کتاب کے سرورق پر ان کا قول درج ہے۔
’’جب تک میں زندہ ہوں‘‘ اسلام، نظریہ پاکستان اور جمہوریت کے لئے کوشاں رہوں گا۔‘‘ میں کہتا ہوں کہ جب تک نظریہ پاکستان زندہ ہے مجید نظامی صاحب بھی زندہ رہیں گے:
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
سفینہ چاہے اس بحر بیکراں کے لئے

ای پیپر دی نیشن