تابناک صحافت کا ایک شاندار عہد

قیام پاکستان کے بعد پاکستان کی قومی زندگی میں بے شمار مدوجزر آئے محلاتی سازشوں کے ذریعے حکومتوں کی تبدیلی قادیانیت سیکولرزم اور سوشلزم کی صورت میں نظریاتی تخریب کاری فوجی مارشل لائوں کے طویل ترین سلسلے عجوبہ روزگار سول مارشل لاء اور پھر جمہوریت کے نام پر بدترین آمریتوں کے ادوار حکمرانوں اور سیاسی قیادت نے اپنی ڈھکمل یقینی کے باعث وطن عزیز کو بار بار نظریاتی پٹڑی سے اتارنے کی کوشش کی لیکن نوائے وقت نہ صرف اپنی نظریاتی و فکری بنیادوں پر مضبوطی سے قائم رہا بلکہ وطن عزیز کی نظریاتی سمت درست رکھنے میں پیش پیش رہا حق یہ ہے کہ نوائے وقت ایک اخبار یا میڈیا گروپ کا نام نہیں ایک تحریک کا نام ہے بانی نوائے وقت حمید نظامی کی وفات کے بعد اس تحریک کی قیادت ان کے برادر اصغر انہی کے تربیت یافتہ اور ان نظریاتی و فکری جانشین امام صحافت مجید نظامی (مرحوم) کے ہاتھ میں آئی۔ جنہوں نے درخشندہ روایات کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ اسے چار چاند لگا دئیے۔
ظلمتوں کے بیچ رہ کے جو نہ گھبرایا کبھی
مہر تاباں کی طرح وہ صاحب کردار تھا
محفل یاراں میں جو مانند ابریشم رہا
سرکشوں کے سامنے اک آہنی دیوار تھا
1965ء کے صدارتی انتخابات میں فیلڈ مارشل ایوب خان کے مقابلے میں مادر ملت فاطمہ جناح کی دل و جان سے حمایت کوئی آسان کام نہیں تھا۔ متحدہ پاکستان کے بڑے بڑے جغادری سیاستدانوں سمیت بعض اہل صحافت نے اس بھاری پتھر کو اٹھانے سے گریز کیا۔ یہ صرف مجید نظامی تھے۔ جنہوں نے مادر ملت کا کھلے بندوں ساتھ دے کر ایوبی آمریت کے ایوانوں کو روزہ براندام کرکے رکھ دیا۔ نوائے وقت کے اشتہارات قطعی طور پر بند کردئیے مگر مجید نظامی نے مادر ملت کی حمایت میں مشرقی پاکستان میں نکالے جانے والے جلوسوں اور جلسوں میں طلباء اور سیاسی کارکنوں پر تشدد گرفتاریوں اشک آور گیس کے استعمال لاٹھی چارج اور ملک کی مختلف یونیورسٹیوں سے اپوزیشن کی حمایت کا دم بھرنے والے طالب علموں کے جبری اخراج تعلیمی اداروں میں پولیس کے داخلے سیاسی کارکنوں کے ساتھ بہیمانہ سلوک اور حزب اختلاف کی جماعتوں پر چھاپوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کی روش میں کمی نہ آنے دی جب کوئی قلم نہیں بولتا تھا شاعر کنگ ہوگئے تھے ادیبوں کے ذہنوں کو گویا رائٹر گلڈ کی دیمک لگ گئی تھی آتش نوائی کا دعویٰ کرنے والوں نے منہ سی لئے تھے صحافت کے میدان میں قلم کی حرمت کے پاسبانوں کی صفوں میں اکثریت پر تماش بینوں کا گمان گزرتا تھا ایسی فضائوں میں شاہینوں کی جگہ گرگسوں کی زیادتی کے نتیجے میں ماحول مکدر نہیں تھا مگر حالات کی ایسی چیرہ دستیوں خوفناک فضا کی سنگینیوں اور مارشل لاء اور اس کے بعد کے غیر جمہوری ماحول کی تاریکیوں میں احساس محرومی اور درندگی سے دو چار عناصر کے لئے جو شخصیت روشنی کی کرن بن کر نمودار ہوئی وہ روزنامہ نوائے وقت کے چیف ایڈیٹر مجید نظامی تھے۔
؎صدر ایوب خان سے مجید نظامی کی پہلی ملاقات کراچی کے گورنر ہائوس میں ہوئی۔ یہ مارشل لاء کا دور تھا۔ وہاں انہوں نے ایڈیٹرز کو بلایا ہوا تھا وہ خود صوفے پر براجمان تھے اور ایڈیٹروں کے لئے کرسیاں تھیں اس طرح کا ماحول تھا جس طرح استاد کلاس لیتا ہے صدر ایوب نے ایڈیٹروں کو مخاطب کرتے ہوئے غصے سے کہا آپ لوگوں کو اپنے گریبان میں منہ ڈالنا چاہئے اور آپ لوگوں کو شرم آنی چاہئے۔ مجید نظامی نے کہا جان کی امان ہے فیلڈ مارشل صاحب ایوب خان مسکرائے اور بولے جی کہیں۔
مجید نظامی نے کہا جب میں اپنے گریبان میں منہ ڈالتا ہوں تو میرا سر فخر سے بلند ہوتا ہے شرم کس بات پر آنی چاہئے۔ ایوب خان کہنے لگے میرا اشارہ آپ کی طرف نہیں تھا۔ مجید نظامی نے ایوب خان سے کہا کہ آئندہ آپ کا اشارہ جس کی طرف ہو آپ اس کا نام لیا کریں اور اسے کہا کریں کہ اسے شرم آنی چاہئے کہ اس نے یہ کیا۔ انہوں نے سول اور ہر جرنیلی آمر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر حق و صداقت کی بات کی کلمہ حق بلند کرتے ہوئے ایوب خان ‘ یحییٰ خان‘ جنرل ضیاء الحق‘ جنرل پرویزمشرف کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ مصلحتوں کی خاطر اصولوں کو قربان کردینا گویا سیکھا ہی نہیں تھا نفع و نقصان کی پرواہ کئے بغیر حکمرانوں کو لگی لپٹی کے بغیر سچی بات کہہ دیا کرتے تھے تحریک پاکستان ہو یا تحریک ختم نبوت‘ تحریک نظام مصطفی ہو یا تحریک ناموس رسالت، تحریک کشمیر ہو یا فلسطین کے مظلوم مسلمان یا پھر 28 مئی 1998ء میں ایٹمی دھماکہ ہو‘ ہر موقع پر پوری قوم میں ان کا کردار مثالی رہا۔ یہ پاکستان کے میدان صحافت کے شہسوار کے درخشاں کارنامے ہیں جو کہ مسلسل 72 برس تک قلم و قرطاس کے ذریعے حریت فکر کے چراغ روشن کرتا رہا۔ نوائے وقت نے اقبالؒ اور قائد کے افکار کی ترویج کو اپنا مشن بنایا پاکستان کو ایک جمہوری اسلامی فلاحی مملکت بنانے کے لیے بانیان پاکستان کے خواب کی تکمیل کیلئے اپنے انداز میں جدوجہد کی اور جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کو اپنا وطیرہ بنایا۔ نوائے وقت نے اپنی اصول پسندی اور صحافتی حق گوئی سے حقیقی معنوں میں ثابت کر دکھایا کہ جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا سب سے بڑا جہاد ہے نوائے وقت کے جرات مندانہ ادارئیے اور تعمیری تنقید پر مبنی مضامین پر حکومت اور حکمرانوں کیلئے یکساں طور پر چشم کشا اور رہنما ثابت ہوئے۔ حمید نظامی مرحوم نے پاکستان اور اسلام کی سربلندی کیلئے جو مشعل روشن کی تھی ان کے بھائی مجید نظامی مرحوم نے نہ صرف اس مشعل کو روشن رکھا بلکہ اس کی انفرادیت کو ایک نیا اعتماد بخشا۔
26جولائی 2014ء کو علی الصبح86 برس کی عمر میں ان کی روح ان کے جسد خاکی سے پرواز کرگئی اس طرح وہ مقدس و متبرک رات کی برکتیں سمیٹتے ہوئے اس جہان فانی سے رخصت ہوئے۔یہ حسن اتفاق ہے کہ پاکستان کا قیام بھی 27رمضان المبارک کو عمل میں آیا اور امام صحافت مجید نظامی کی رحلت بھی 27رمضان المبارک کو ہوئی جو ارض وطن پاکستان سے ان کی بے پایاں محبت کی آسمانی گواہی ہے انہیں 27 رمضان سے بڑی محبت تھی یوم پاکستان بھی 27 رمضان المبارک کو مناتے تھے اللہ نے ان کی خواہش کے مطابق ان کا سفر آخرت بھی 27 رمضان المبارک کو طے فرمایا۔ شب قدر کی مبارک ساعتوں میں پاکستان معرض وجود میں آیا تھا اور یہی باسعادت سعادتیں پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے محافظ مجید نظامی کو ساتھ لے گئیں۔ … (بشکریہ مون ڈائجسٹ)

ای پیپر دی نیشن