خالد یزدانی
پاکستان میں گذشتہ الیکشن 2013 میں منعقد ہوئے تھے جن میں مسلم لیگ (ن) نے برتری حاصل کی تھی جس کے نتیجے میں مرکز اور پنجاب میں اس کی حکومت رہی ،اب پانچ سال بعد ایک بار پھر عام انتخابات کی سرگرمیاں جاری رہیں جس میں مسلم لیگ (ن) تحریک انصاف ،پاکستان پیپلز پارٹی اے این پی،ایم ایم اے ،پی ایس پی سمیت دیگر جماعتوں نے جلسے اور جلوسوں میں اپنی اپنی جماعتوں کے منشور سے آگاہ کیا تاکہ وہ 25 جولائی کو منعقد ہونے والے الیکشن میں ان کو ووٹ دے کر کامیاب کریں ، انتخابات کے دن ملک بھر میں عام تعطیل تھی، خیبر تا مہران قومی اسمبلی کی 270 نشستوں پر سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کے درمیان زبردست مقابلے ہوئے۔ اسی طرح صوبائی اسمبلیوں کے امیدواروں کے درمیان بھی مقابلے دیکھنے کو آئے۔ ان انتخابات کے لئے الیکشن کمشن نے زبردست انتظامات کئے تھے ، قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ووٹ اور دیگر انتخابی سامان پریذائیڈنگ عملہ کے سپرد گزشتہ رات کو ہی کردیا گیا تھا۔ پورے ملک میں پچیس جولائی کومقررہ وقت صبح آٹھ بجے سے پولنگ کا آغاز ہو گیا تھا ،جبکہ پاکستان کی مختلف سیاسی جماعتوں کے انتخابی کیمپ مقررہ فاصلے پر ووٹر لسٹوں کے ساتھ ووٹ ڈالنے کیلئے آنے والوں کو پرچی پر ووٹ نمبر‘ نام اور دیگر کوائف درج کرکے ان کی رہنمائی بھی کر رہے تھے تاکہ جب وہ ووٹ ڈالنے جائیں تو انتخابی عملے کو ووٹ تلاش کرنے میں بھی سہولت ہو۔
الیکشن 2018ء کے دوران ملک بھر کے بڑے شہروں میں ہی نہیں‘ دور دراز کے علاقوں میں بھی ووٹ ڈالنے والوں میں جوش و جذبہ دکھائی دیا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن)‘ تحریک انصاف‘ پاکستان پیپلزپارٹی‘ متحدہ مجلس عمل اور دیگر سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے بھی الیکشن سے پہلے ہی اپنے اپنے علاقوں میں گھر گھر جا کر ووٹروں کو ’’پرچی‘‘ دینے کا آغاز کردیا تھا۔ الیکشن کے دن بھی وہ اپنی اپنی جماعتوں کے کیمپوں میں ووٹرز کی رہنمائی کرتے دکھائی دیئے۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے کیمپوں میں زیادہ گہماگہمی دکھائی دی پنجاب‘ سندھ‘ کے پی کے اور بلوچستان کے ساتھ فاٹا کے ووٹروں میں بھی جوش و خروش دکھائی دیا کیونکہ فاٹا والوں کو پہلی بار اپنے علاقے میں جماعتی بنیادوں پر انتخابات میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر اپنا نمائندہ چننے کا موقع ملا تھا۔
آج ہونے والے انتخابات میں مجموعی طورپر 95 جماعتوں کے 1167 امیدوار میدان میں تھے جبکہ چاروں صوبوں اور دارالحکومت اسلام آباد میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد دس کروڑ 59 لاکھ 55 ہزار 409 ہے۔
25 جولائی کو ملک بھر میں سارا دن ووٹنگ زور و شور سے وقفے کے بغیر جاری رہی۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہبازشریف نے لاہور میں اپنا ووٹ ڈالا جبکہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اسلام آباد میں‘ متحدہ مجلس عمل کے مولانا فضل الرحمن نے ڈیرہ اسماعیل خان‘ فاروق ستار‘ مصطفی کمال نے کراچی ‘ بلاول بھٹو زرداری نے لاڑکانہ‘ شیخ رشید‘ چودھری نثار نے راولپنڈی میں ووٹ ڈالا جبکہ نگران وزیراعظم پاکستان اور نگران وزراء اعلیٰ نے بھی اپنے اپنے حلقے میں جا کر ووٹ ڈالا۔
25 جولائی 2018ء کو سارا دن ووٹرز اور سپورٹروں کا جوش قابل دید تھا۔ سب اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت کی حمایت کر رہے تھے کہ ان کو پانچ سال بعد اپنے ووٹ کا حق استعمال کرنے کا موقع ملا۔