آبروئے صحافت کے ماہ و سال

نائن الیون کے بعد امریکن اسٹیبلشمنٹ اور صدر بش نے ٹھان لی کہ اب افغانستان پر حملہ کیا جائے۔ پینٹاگون کے دیرینہ منصوبے کو عملی جامہ پہنایا اور طالبان کو پسپا کیا جائے ۔ برطانیہ جرمنی، فرانس اور دیگر ممالک کے ساتھ رابطوں کے بعد پاکستان کو اعتماد میں لینے اور اس کے تمام فضائی روٹ اور زمینی وسائل استعمال کرنے کے لئے جنرل مشرف اور حسین حقانی سے بات کرنا کا فی تھا۔ امریکی انتظامیہ نے انہیں قائل و آمادہ کر لیا ۔ آمر صدر جنرل مشرف نے بقول ان کے، پاکستان کے بہترین مفاد میں نہ صرف امریکی حمایت کا اعلان کر دیا بلکہ اپنے آپ کو اس دہشت گردی کےخلاف نام نہاد جنگ میں امریکہ کے حمائتیوں کی صف اول میں شامل کر لیا ۔
صدیوں سے قائم پاک افغان تعلقات اسلامی نظریہ ڈیوانڈ لائن کے دونوں اطراف بھائی چارہ اور سب سے بڑھ کر خطے میں طاقت کے توازن کے بگڑنے اور دہشت گردی کے مزید جڑ پکڑنے کے خدشات کو نظر انداز کردیا گیا۔ صدر مشرف اور ان کی حکومت نے سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگا کر ملک کے اندر سے اٹھنے والی مخالف آوازوں کو خاموشی کرنے ی بھرپور کوشش کی اور کافی حد تک کامیاب رہے ، تاہم ایک آواز جسے وہ خاموش نہیں کراسکے وہ معمارنوائے وقت جناب مجید نظامی (مرحوم) کی آواز تھی یہ آواز بہت توانا اور طاقت ور تھی ۔ ان کی علمی و فکری دانش نے بخوبی جانچ لیا تھا کہ جنرل مشرف گھاٹے کا سودا کر رہے ہیں لہذا حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود مجید نظامی نہ صرف حق بات پر ڈٹے رہے بلکہ نوائے وقت کے صفحہ 3 پر سب سے اوپر ”افغان باقی کوہسار باقی ۔ الحکم لللہ و الملک لللہ “ کے عنوان سے روزانہ کی بنیاد پر اشاعت مسلسل جاری رہی۔ حکومتی ایوانوں سے لے کر سفارتی محلوں اسلام آباد سے لے کر پنٹاگون اور وائٹ ہاﺅس تک اس کی گونج مسلسل پہنچتی رہی۔ اشتہاروں اور روپوں کی ریل پیل اور سیاسی و عسکری دباﺅ مجید نظامی کی پالیسی کو متاثر نہ کر سکے۔
آج امریکہ کی سمت ساری دنیا کے سامنے روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ امریکہ کے افغانستان کے حملے سے دنیا میں دہشت گردی کی فضا میں بہت اضافہ ہوا اور پاکستان ابھی تک اس غلطی کی سزا بھگت رہا ہے۔بھارت روز بروز افغانستان کے قریب ہوتا چلا جا رہاہے اور ہماری روایات اور بھائی چارے پر مبنی صدیوں کی دوستی اب دشمنی میں بدل چکی ہے۔ اس وقت ہماری آرمی ڈیوانڈ لائن کے قریب باڑ لگانے میں مصروف ہے اس کے باوجود ادھر سے ادھر آتی ہوئی تندو تیز ہوائیں تھمنے کا نام نہیں لے رہیں۔ مجید نظامی کی جرا¿ت اور بے باکی بہت معنی خیز تھی اور حقیقتاًپاکستان کے قومی مفاد میں تھی۔
فرزند اقبال جسٹس (ر) ڈاکٹرجاوید اقبال چند اختلافات کے باوجود کہتے کہ مجید نظامی ایک محب وطن اور ملی جذبے سے سرشار صحافی ہیں۔ پاکستان کو قائداعظم اور علامہ اقبال کے جمہوری اور سیاسی تصور کی روشنی میں ایک جدید اسلامی جمہوری اور فلاحی ریاست بنانے کی کوشش سے انہوںنے کبھی صرف نظر نہ کیا۔ ناقابل تردید حقیقت تو یہ ہے کہ منتخب جمہوری حکومتی ایوانوں میں مجید نظامی نے قومی امنگوں کی ترجمانی کا حق ادا کرنے میں کبھی شامل نہ کیا۔ جمہوری حکومتوں نے جب بھی کوئی غیر جمہوری انداز اختیار کیا یا پاکستان کے نظریاتی تشخص پر آنچ آنے والا کوئی بھی اقدام کیا تو مجید نظام یاس کے خلاف سینہ سپر ہوگئے۔
قائداعظم محمد علی جناح نے 1940ءمیں لاہور اپنی ایک خواہش کا اظہار کیا تھا کہ مسلم لیگ کو ترجمان اخبارات کی ضرورت ہے لہذا اہل قلم آگے بڑھیں اور اس تحریک میں اپنا حصہ ڈالیں ، اس مطالبے کی روشنی میں جناب حمید نظامی آگے بڑھے اور اپنا سب کچھ داﺅ پر لگا کر نوائے وقت کی بنیاد رکھی اور اس پودے کو تناور درخت بنانے کےلئے اسے اپنے خون سے سینچا۔ تحریک پاکستان اور نظریہ پاکستان کو بے پناہ تقویت ملی ۔ پنجاب میں 1947ءکی سول نافرمانی کی تحریک میں نوائے وقت اور حمید نظامی نے مسلم لیگ کی ترجمانی کا حقیقی حق ادا کیا۔ قیام پاکستان کے موقع پر ملی حمیت کے جذبے کو پروان چڑھایا اور ابتدائی مشکلات کے حل کے لئے حکومت اور عوام کے درمیان رابطہ استوار کیا۔
1962ءمیں بڑے بھائی کی وفات کے بعد مجید نظامی نے ذمہ داری سنبھالی تو جرا¿ت کے نئے باب روشن کئے۔ جمہوری اور غیر جمہوری دونوں اقسام کی حکومتوں کے دور میں قومی ذمہ داریاں بطریق احسن سر انجام دیں۔ قومی و ملی مفادات کی خاطرحکمرانوں سے ٹکر لی۔ کبھی پابندیوں کا سامنا کیا تو کبھی اشتہاروں کی بندش کا، مخالف ہواﺅں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔1962سے لے کر 2014تک نوائے وقت اور مجید نظامی کے زیر سایہ بے شمار ایڈیٹر نیوز ایڈیٹر، چیف رپورٹر، رپورٹر، کالم نگار ، فیچرنگار اور دیگر صحافی کارکن پروان چڑھے اور آج وہ ملک بھر کے میڈیا میں اہم ذمہ داریاں سر انجام دے رہے ہیں لہذا اگر یہ کہا جائے کہ نوائے وقت نے مجید نظامی کے زیر سایہ صحافت کی عملی تعلیم دینے والی یونیورسٹی کی شکل اختیار کر لی تھی تو بے جانہ ہوگا ۔ نظریاتی صحافت سے جوڑا جائے تو اس تصور کو مزید تقویت پہنچتی ہے۔
آج اگر نوائے وقت کا نام لیا جائے تو فوراً اسلامی اقدار ، نظریہ پاکستان اور دو قومی نظریہ کا خیال ذہن میں آتا ہے یہاں یہ ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ انہوں نے صحافتی خدمات کے ساتھ ساتھ فکری نشوونما کے لئے دو اہم اداروں کو پروان چڑھایا۔ ایک نظریہ پاکستان ٹرسٹ جو 1992ءمیں قائم ہوا۔ بانی چیئرمین وزیراعلیٰ پنجاب غلام حیدر وائیں تھے۔ مجید نظامی نے 1999 سے 2014تک بطور چیئرمین خدمات سر انجام دیں۔ ان کی سربراہی میں ادارے نے طالب علموں میں قائداعظم اور علامہ اقبال کے تصور پاکستان کو اجاگر کرنے میں اہم خدمات سرانجام دیں ۔ دوسرا ادارہ پریس انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان ہے جس کا نام بعدازاں حمید نظامی پریس انسٹیٹیوٹ آف پاکستان کر دیا گیا ۔ یہ ادارہ صحافیوں کی صلاحیتی تعمیر کے لئے تربیتی سیمینار کرواتا ہے اور نامور اور سینئر صحافیوں کی مدد سے نوجوان صحافیوں کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کیا جاتا ہے۔ نظریہ پاکستان اور عملی پیشہ ورانہ صحافت کو مزید فروغ دینے کے لئے نوائے وقت گروپ آج بھی نظامی صاحب کے مشن اور ان اداروں کو مزید بہتری کے لئے کام جاری رکھے ہوئے ہے۔

ای پیپر دی نیشن