آئینہ ادب پہ ہیں اب وہ، کُندہ صورتیں
کیسی کیسی تھیں جہاں میں روہی، رعنا صورتیں
تاریخ ساز زندگی گزار کے جانے والے بے شمار ادیب، صحافی اور باکردار شخصیات ہماری یادداشتوں میں زندہ ہیں۔ انہی میں سے ایک ایسا ستارہ بھی ہے جس نے خود کو مانگے کی روشنی سے روشن نہیں بلکہ اپنے اندر کے اجالے سے صحافت اور ادب کی زمین سے ظلمت کدے ہی اجالوں سے نہیں بھرے بلکہ1947میں تحریک آزادی کے سرگرم عمل کارکن بھی رہے۔ ایسی شخصیت کا چند لفظوں یا چند سطروں میں احاطہ ناممکن ہے۔
مجید نظامی، مردِحُر، بابائے صحافت، خزانہ ادب کے نام سے پہچانے جاتے ہیں، صحافت، سیاست، سماجی زندگی، تہذیب وثقافت واقدار اور تعلیمی میدان کے بہترین رہنما تھے، سننے میں آیا کرتاہے کہ جو بہت سے شعبوں میں زور آزمائی کرتاہے وہ اصل میں کچھ بھی نہیں کرتا مگر مجید نظامی صاحب کی زندگی کا جائزہ لیں تو انہوں نے اس بات کی نفی کردی، 3اپریل1928ءکو پیدا ہونے والے مجید نظامی نے جب اپنی زندگی کی دوڑ میں سچا پاکستانی بن کر قدم رکھا تو اس وقت ایسا محسوس ہوتا تھا کہ شاید صحافتی خدمات سرانجام دینے کے دوران آنے والی مشکلات سے گھبرا کر دیگر لوگوں کی طرح کہیں، مجید نظامی صاحب بھی کوئی ایسا فیصلہ نہ کرلیں۔ مگر ایوب خان کے خلاف دوسرے سیاستدانوں سے بڑھ کر انہوں نے ایسے قدم جمائے رکھے اور نوائے وقت کودبنے نہیں دیا، کہیں گرجنا پڑتا تو سیاستدان بن کر گرجتے، کہیں برسنا پڑتا تو نوائے وقت میں صحافت کا عَلم اٹھائے زمین ادب پہ مستند اور بھرپور طریقے سے مضامین اور خبروں کو متحرک رکھتے، ان کی استقامت واستقلال قابل تحسین ہوا کرتی۔ بے شمار اخبارات کا قلعہ قمع کردیا گیا بقیہ اخبارات کو کہیں نہ کہیں سمجھوتے کی دیوار کا سہارا لیناپڑا مگر مجید نظامی صاحب وہ سیسہ پلائی دیوار بن گئے اور صحافت کو نہ اپنے معیار سے گرنے دیا اور نہ آمریت سے خوفزدہ ہوئے جس طرح آمریت کے خلاف جنگ مشرقی پاکستان کے اخبارات نے لڑی، مغربی پاکستان میں نوائے وقت نے اپنا جھنڈا گاڑا، مجید نظامی صاحب کے نوائے وقت کی جرات مندی یہ تھی کہ اس میں عوام اور سیاسی اپوزیشن کی بھرپور ترجمانی کی جاتی، کوئی ان کو روکنے کی جسارت کرتا بھی تو محب وطن مجید نظامی صاحب اس کو گھر کا راستہ دکھا دیتے۔محترمہ فاطمہ جناح کو رائج الوقت خطاب ”مادرملت “دینے کا اعزاز بھی نوائے وقت کو حاصل ہے، نوائے وقت کی سرکرلویشن عروج کو پہنچ چکی تھی اوراس کا سبب سچائی تک رسائی تھا۔ حق وباطل کی تحریری جنگ تھی اور بقاءوفنا کا فیصلہ تھا۔ ان کے سکہ بند نظریات کے خلاف اگر ان کا کوئی دوست بات کرتایا ان سے مکالمہ کرنے کی جسارت کرتا تووہ خاموش رہ کرمسکراتے رہتے، اور چائے کی چسکیاں لینے لگتے۔ جس سے اندازہ یہ ہوتا ہے کہ وہ بے انتہا دوست نواز بھی تھے۔ ڈر، خوف اور دب جانا ان کی فطرت کے عین منافی تھا، وہ آزادی صحافت اور آزادی نظریات کے قائل تھے، پاکستان، جناح اور مادرملت سے انتہا کی عقیدت اور محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ یحییٰ خان نے اپنے فوجی آمرانہ لب ولہجے اور تنی ہوئی تکبر کی گردن کے ساتھ صحافیوں سے کانفرنس کی اور انہیں ان کے صحافت کے فرائض ملک اور عہدیداروں سے ذہنی ہم آہنگی رکھنے کے ساتھ ساتھ ذمہ داریوں کے متعلق آگاہ کرنا شروع کیا، اس میں خوش قسمتی سے مجید نظامی صاحب جیسے دبنگ اور سچے پاکستانی بھی موجود تھے، انہوں نے ہر خوف خطر اورپرمنفی نتائج سے بالاتر ہوکر کہا، ”انگریزوں کی نوکری کرتے کرتے آپ نے اس حکومت کو اپنا کر آمریت قائم کرنے کےلئے عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا، آپ ہمیں پاکستان کا مطلب سمجھائیں گے؟ آپ کا پاکستان کی تحریک آزادی میں کردار ہی کیا تھا؟ پاکستان کا مفاد ہم جانتے ہیں کہ کیا ہے؟ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اقتدار میں آپ کی موجودگی پاکستان کے مفاد میں ہرگز نہیں ہے“۔
اب تو وہاں موجود لوگوں کو یقین ہوگیا کہ مجید نظامی کو آمریت کے زیرعتاب آنے سے کوئی نہیں روک سکتا، مگر پھر بھی مجید نظامی صاحب کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کرسکا۔
مجید نظامی صاحب ذاتی اور دوستوں کی زندگی میں بہت خوش مزاج، طنزومزاح سے کام لینے والے انسان تھے۔ انہوں نے اپنی گفتگو میں اپنے نظریات کو کبھی کسی دوسرے پہ ٹھونسنے کی کوشش نہیں، ان کو قائداعظم محمدعلی جناح اور حضرت علامہ اقبال سے والہانہ عشق تھا ان کے اخبار میں لکھنے والے ادیبوں کی کسی جملے یا خبر پہ پکڑہوتی تو مجید نظامی صاحب بڑی خوبصورتی کے ساتھ اس کی ذمہ داری قبول کرتے کیونکہ ان کا اپنا ایک احتساب کا دائرہ ہوتا تھا ان کے اندر کا سنسر بورڈ بہت باریک بین تھا۔
کسی بھی خبر یا بات کی تحقیق کرنا ان کی فطرت میں شامل تھا یہاں تک کہ اگر دفتری کارکن کے درمیان جھگڑا ہوجاتا اور ان تک خبر پہنچتی یا فریق ان تک پہنچ جاتا تو بڑی بُردباری اور محبت کے ساتھ نہ صرف فیصلہ کرتے بلکہ مزاجً، مزاح پسند کرنے کی وجہ سے مسکرا کر کہا کرتے، اگلی مرتبہ جھگڑنا ہوتو مجھے پہلے ہی بتا دینا۔مجید نظامی صاحب نے اپنی زندگی کا بہترین وقت صحافت میں گزارا، ان کے کردار کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ نئے آنے والوں کو ایسے استادوں کے حوالے کرتے کہ سیکھنے والا ایک چمکتا ہوا ستارہ بن کے نکلتا۔ راقمہ کو بھی آخری دنوں میں ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہے، ان کی آواز میں اتنی محبت وشفقت محسوس کی کہ یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ اتنے بڑے شخص نے ناچیز کو چند الفاظ کہے، کہ! ”آپ کی تحریریں نوائے وقت کے مختلف شعبوں میں نظر سے گزرتی ہیں آپ کالم بھی لکھنا شروع کردیں“۔
انتہائی شفیق استاد، بہترین دوست، بابائے صحافت، سُرخیل ادب، محب وطن، دوراندیش، نڈر اور بے باک، سپہ سالار، جن کی آج بے انتہا کمی محسوس ہوتی ہے ان کی تاریخ ساز زندگی کو سامنے رکھتے ہوئے اگر ہم چاہیں تو اپنے قلم کی آواز اور فکر وعمل کے ذریعے اپنے اندر مجید نظامی صاحب کو زندہ رکھ سکتے ہیں۔
سُرخیلِ صحافت
Jul 26, 2018