پاکستان میں جب بھی کوئی اہم موقع یا وقت آتا ہے تو ایسے میں وہ ہستیاں جن کا وجود ملک و قوم کے لئے مشفق باپ کی طرح رہا ہو اور اب وہ ہم میں موجود نہ ہوں۔ ان کی یاد شدّت سے آتی ہے۔ ایسے وقت میں اُن کی کمی بےحد محسوس ہوتی ہے۔ ایسی ہی عظیم ہستیوں میں محترم مجید نظامی (مرحوم) کی ذات بھی تھی، جن کی کمی ہمیشہ مشکل کی گھڑی میں محسوس ہوتی ہے۔ ان کے مخلصانہ مشورے ہر پاکستانی (محبِ وطن) کے لئے قیمتی اثاثہ تھے۔ آج جبکہ ملک میں انتخابات ہو رہے ہیںآج کے دن محترم مجید نظامی صاحب کے سائے سے قوم محروم ہو گئی تھی۔ آج ہر محب وطن ان کی کمی شدّت سے محسوس کر رہا ہے۔ آپ کی زندگی پاکستان اورکشمیر کے ساتھ عشق سے عبارت تھی۔ آپ کی ذات حقیقتاً انتہائی تکلیف دہ حالات میں ایک گھنے سایہ دار درخت کی مانند تھی۔ جہاں آپ نے ناصرف صحافت کے میدان میں ایک مجاہد کا کردار ادا کیا وہاں آپ نے پاکستان بنانے والوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر کے انہیں نظرانداز نہ ہونے دیا اور ہر خاص موقعہ پرکارکنانِ تحریک پاکستان کو مدعو کر کے وی آئی پی پروٹوکول سے نوازتے ا ور پھر ایک ہزار سے زائد کارکنان کو گولڈ میڈل سے بھی نوازا۔ جن میں میرے والد صاحب آغا شیر نواب خان صاحب (مرحوم) کو بھی تحریکِ پاکستان اور جنگِ کشمیر 1948ءکی جنگ میں نمایاں خدمات انجام دینے پر 2010ءمیں گولڈ میڈل سے نوازا اس کے علاوہ 1997ءمیں جب میری کتاب چھپی تو میں نظامی صاحب کی خدمت میں پیش کرنے گئی تو آپ نے مجھے نوائے وقت میں کالم لکھنے کے لئے کہا! چنانچہ میں نے نوائے وقت میں کالم لکھنے شروع کئے۔ 2003ءمیں نظریہ پاکستان فاﺅنڈیشن جس کے پلیٹ فارم سے نظامی صاحب نے تمام کارکنانِ تحریکِ پاکستان کو اکٹھا کیا تھا کے توسط سے محترمہ فاطمہ جناح کے نام سے 2003ءکے سال کو منسوب کیا اور اس سلسلے میں محترمہ فاطمہ جناح کی حالتِ زندگی پرمبنی کتب تحریر کرنے کا اعلان کیا جس کی وجہ سے کئی اور مصنفین کی طرح میں نے بھی محترمہ فاطمہ جناح کی حالاتِ زندگی پر مبنی کتاب تحریر کی۔ جس پر مجھے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ محترم نظامی صاحب کا نظریہ پاکستان سے عشق بھی لازوال تھا۔ اس لئے آپ باقاعدگی سے ہر سال نظریہ پاکستان کانفرنس کا انعقاد کرواتے۔ اگرچہ نظریہ پاکستان کانفرنس کا انعقاد اب بھی ہوتا ہے، لیکن نظامی صاحب کی زندگی میں جو کانفرنسز ہوئیں اُن میں جوش و خروش دیدنی ہوا کرتا تھا۔
قانونِ قدرت ہے جو آتا ہے، اسے ایک دن جانا بھی ہوتا ہے۔ لیکن لائقِ تحسین ہوتے ہیں، وہ لوگ جن کے اس دُنیاسے چلے جانے کے بعد بھی لوگ اُنکے بارے میں اچھے الفاظ سے اُنہیں یاد رکھتے ہیں۔ اُنہیں ہدیہ¿ عقیدت پیش کرتے رہتے ہیں۔ یقیناً اچھے لوگوں کے بارے میں یہ گواہیاں ہوتی ہیں جو اُنکے نیک ہونے کا ثبوت ہوتی ہیں۔ محترم نظامی صاحب کے بعد آج بھی روزنامہ نوائے وقت دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے۔ محترمہ رمیزہ صاحبہ نوائے وقت کو مزید آگے لے جانے میں پیش پیش ہیں لیکن نظامی صاحب کی کمی پھر بھی ہمیشہ محسوس ہوتی رہے گی۔