جرنیلوں سے جناب نظامی کے مکالمے

’’میری ساری زندگی فوجی آمروں اور پارلیمانی جابروں سے لڑتے بھڑتے گذر گئی‘‘ مرحوم محمد خان جونیجو کا مختصر دور حکومت ٹھنڈی ہوا کا جھونکا تھا جب حقیقی جمہوریت بحال ہوئی تھی۔
جنت مکانی جناب مجید نظامی اپنی داستانِ حیات کے طویل اور پْر شکوہ سفر کو دو جملوں میں نمٹا دیا کرتے تھے۔ نواب آف کالا باغ امیر محمد خان سے پہلی ملاقات کو اپنی زندگی کا اہم موڑ قرار دیتے ہوئے بتایا کرتے تھے ۔
نواب صاحب’ بھائی صاحب کی فاتحہ خوانی کیلئے آئے تو کہنے لگے آپ کسی دن میرے ساتھ چائے پئیں میں کچھ دن بعد ان کے پاس گیا تو فرمانے لگے کہ میں میانوالی کا اعوان ہوں میرا واسطہ نیازیوں کے ساتھ پڑا ہوا ہے میں نے یہ مونچھیں نیازیوں کیلئے رکھی ہیں۔ میں نے کہا کہ میں سوچ رہا تھا کہ شاید یہ مونچھیں آپ نے میرے لئے رکھی ہیں۔ پھر پنجابی میں بولے: ’’اْتے خدا تے تھلے ایوب خان اے۔ اگر او کہوے کہ نوائے وقت بند کر دے تے میں ایک لمحہ بھی نئیں سوچاں گا لیکن تو جناں(مرد میدان) بنیں تے اپنے بھرا دی پگ اْچی رکھیں۔ میں نے کہا کہ یہ دھمکی ہے یا مشورہ’ انہوں نے کہا کہ میں نے جو کہنا تھا وہ کہہ دیا’ اور میں نے پچاس برس جناں بن کے دکھایا ہے
اپنی ادارت کی نصف صدی مکمل ہونے پر تقریب پذیرائی میں انہوں نے فوجی آمروں اور پارلیمانی جابروں سے ملاقاتوں کا احوال سنایا تھا جو درحقیت پاکستان کے 70 برس کی داستان ہے جناب مجید نظامی نے بتایا ۔ ’’اللہ کا شکر ہے کہ میں نے ہر ڈکٹیٹر کی آنکھ میں آنکھیں ڈال کر بات کی۔ خواہ ایوب خان ہو، یحییٰ خان ہو، ضیاء الحق ہو یا مشرف ہو، ذوالفقار علی بھٹو ہوں یا نواز شریف۔ ہر حکمران کے ساتھ برابری کی سطح پر بات کی ایوب خان کے ساتھ کئی بار ‘اٹ کھڑکا ’ ہوا۔ پہلی بار کراچی میں اخبارنویسوں سے ملاقات میں جنرل ایوب نے کہا کہ آپ لوگوں کو شرم آنی چاہئے اور اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہئے۔ میں کھڑا ہو گیا اور طنزاً کہا کہ جان کی امان پائوں تو کچھ عرض کروں’ انہوں نے کہا کہ بولیں۔ میں نے پوچھا کہ آپ فرما رہے تھے کہ گریبانوں میں جھانکیں۔ میں نے اپنے گریبان میں جھانکا ہے میرا تو سر فخر سے بلند ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرا آپ کی طرف اشارہ نہیں تھا۔ دوسری ملاقات ڈھاکے میں ہوئی جس میں انہوں نے کہا کہ صحافت کاروبار ہے۔ میں نے کہا کہ اگر صحافت کاروبار ہے تو اپنے بیٹے کو صنعتیں لگا کر دینے کی بجائے اخبار نکال دیں۔جنرل یحییٰ خان کے دور میں نوائے وقت سمیت مختلف اخبارات پر مقدمات بن گئے اس حوالے سے ایک اجلاس میں کوثر نیازی نے بتایا کہ یحییٰ خان نے کہا کہ یہ معافی مانگ لیں تو مقدمات واپس لے لیں گے میں نے معافی مانگنے سے انکار کردیا جس پر صدر یحییٰ نے کہا کہ تو پھر مقدمات لڑیں’ پوچھا کہاں مقدمات لڑیں تو انہوں نے کہا کہ مارشل لا عدالتوں میں’ میں نے کہا کہ مارشل لا’نہ لاہے ‘نہ فوجی عدالتیں کورٹس ہیں
پھر بھٹو صاحب کا ‘عوامی راج’ آیا۔ سرکاری اشتہارات اخبارات کیلئے ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں اور نوائے وقت کے اشتہارات تقریباً ہر حکمران کے دور میں بند رہے مگر ہم نے کبھی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ مصطفی صادق کے ساتھ ایک دفعہ بھٹو سے ملنے گئے۔ ملاقات کے دوران میں نے اشتہارات کی بندش کا ذکر تک نہ کیا۔ پھر ضیا کا ‘اسلامی دور’ آیا- ایک انٹرویو کے بعد انہوں نے کہا کہ آپ نے سوال نہیں کیا۔ میں نے ان کے اصرار پر سوال کیا اور پوچھا کہ ’’ساڈی جان کدوں چھڈو گے‘‘۔ اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’’جان چھڈ دتی تے روٹی کتھوں کھاواں گا‘‘ جنرل مشرف کے ساتھ بھی تعلقات بہت اچھے نہیں رہے تھے ۔
9/11 کے مسئلے پر انہوں نے ایڈیٹرز کو بلایا۔ وہ مجھے نواز شریف کا دوست سمجھتے تھے۔ انہوں نے مجھے کہا کہ آپ نے سوال نہیں کیا میں نے ان کے اصرار پر سوال کیا اور ان سے پوچھا کہ آپ نے بش کی ایک کال پر ‘‘سرنڈر’’ کر دیا۔ وہ فوجی تھے سرنڈر کے لفظ سے غصے میں آگئے۔ ان کے دست راست طارق عزیز مجھے کہنے لگے کہ آپ صدر صاحب کے ساتھ کیسے بات کر رہے تھے۔ اس کے بعد مجھے پیغام ملا کہ مشرف نے کہا ہے کہ آئندہ کسی میٹنگ میں مجھے نہیں بلایا جائے گا۔ اس کے بعد میں نے دوبارہ مشرف کی شکل نہیں دیکھی۔ نواز شریف نے بھی شیخ رشید کے ذریعے نیشن کے اشتہارات بند کرنے کی چتائونی دی۔ قصہ مختصر پاکستان کے ہر حکمران نے مجھے اشتہارات کی بندش کی دھمکی دی اللہ تعالیٰ نے جب تک مجھے زندگی دی یہ پالیسی جاری رہے گی میرے بعد رمیزہ میرے نقش پا پر چلیں گی ۔
جرنیلوں سے نظامی صاحب کے ملاکھڑے کے لاتعداد واقعات قرطاس ذہن پر محفوظ ہیں ۔ جنرل پرویز مشرف کی برطرفی کے ڈرامے سے پہلے جناب نوازشریف’ مجاہد اوّل سردار قیوم مرحوم کے ہمراہ گھر پر پہنچے اور جنرل مشرف کے گلے شکوے کئے اور مشورہ مانگا۔ نظامی صاحب نے پوچھا میاں صاحب معاف کرنا !تہاڈی کسے چیف جسٹس ‘ ارمی چیف نال کیوں نہیں بن دی تسیں اپنی پسند دے ہر ‘‘چیف’’ توں بہت جلداک کیوں جاندے او ؟تو اس سوال کا کوئی جواب نواز شریف یا انکے حالیوں موالیوں کے علاوہ سردار عبدالقیوم خان سے بھی نہ بن پڑا
سردار صاحب نے بعدازاں بتایا کہ نظامی صاحب کی باتیں سن کر میں نے بھی میاں صاحب سے یہ کہا کہ اب جنرل پرویز مشرف کو برداشت کریں اور کسی نئی شرارت سے اپنے آپ اور ملک کو مشکلات کی دلدل میں نہ دھکیلیں مگر وہ کہاں باز آنے والے تھے’ بم کو دولتی مار کر رہے ۔
مجید نظامی صاحب بتایا کرتے تھے کہ جدہ کی۔ ملاقات میں‘ میں نے میاں صاحب سے کہا بھلا آرمی چیف کو اس طرح بھی معزول کیا جاتا ہے اس انداز میں تو میں اپنے نائب قاصد کو بھی نوکری سے نہ نکالوں۔جنرل مشرف نے بھی تحفظ پاکستان کے نام پر جناب نظامی سے مدد مانگی تھی یہ واقعہ اس بزدل کمانڈو جرنیل کا اصل چہرہ بے نقاب کرتا ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ یہ کالم نگار جناب نظامی کے پاس حاضر ہوا تو انہیں مضمحل پایا، چہرے پر تھکن کے واضح اثرات دکھائی دے رہے تھے۔ استفسار پر نظامی صاحب نے بتایا کہ شدید کرب میں مبتلا ہوں اچھی طرح نیند بھی نہیں آرہی، جماعت اسلامی کے دور دراز جیلوں میں بند بزرگ رہنماوں اور کارکنوں کا تصور مجھے بے چین کئے رکھتا ہے۔ خاکسار یہ سن کر حیران و پریشان رہ گیا الٰہی یہ ماجرہ کیا ہے۔ پھر نظامی صاحب نے انکشاف کیا کہ جنرل مشرف نے واجپائی کی آمد سے پہلے ملنے کیلئے درخواست کی تھی۔ چند دن بعد لاہور کے کسی فوجی میس میں یہ ملاقات ہوئی تھی۔ جناب نظامی صاحب نے ملاقات کی تفصیلات بتاتے ہوئے انکشاف کیا کہ جنرل مشرف نے مجھے کہا ’’نظامی صاحب پاکستان کو بچا لیں اس وقت یہ کام صرف آپ کر سکتے ہیں۔‘‘ نظامی صاحب یہ سن کر حیران رہ گئے اور جنرل مشرف سے کہا کہ فوج کے سربراہ آپ ہیں، سینے پر بہادری کے تمغے سجائے پھرتے ہیں اور ایک بوڑھے سے پاکستان کا تحفظ کرنے کی درخواست کر رہے ہیں۔ معاف کرنا خدا کا کچھ خوف کریں، میں کیا دفاع کر سکتا ہوں، میرا ادارہ پاکستان کیلئے وقف ہے۔ نوائے وقت میں کیا خدمت کر سکتا ہوں؟ جس پر جنرل مشرف نے کہا کہ حضور میری عرض سن لیں‘ آپ قاضی حسین احمد کو واجپائی کے خلاف میدان میں نکالیں ورنہ نواز شریف پاکستان کو بیچ دے گا، اس نے یہ وعدہ بھی کیا کہ میں واجپائی کو سلیوٹ نہیں کروں گا جس کے بعد جناب مجید نظامی نے قاضی حسین احمد سے غالباً منصورہ جا کر ملاقات کی اور جنرل مشرف کے تحفظات سے آگاہ کیا۔ قاضی حسین احمد نے واجپائی کی آمد پر لاہور کے گلی کوچوں کو میدان جنگ بنا دیا۔ بڑھاپے میں بے پناہ تشدد برداشت کیا۔ آنسو گیس برداشت کی اور لاٹھیاں کھائیں۔ ریاستی دہشتگردی کا سامنا ایسی جواں مردی سے کیا کہ جواں جہاں دیو قامت بھی عش عش کر اٹھے۔ پھر ہوا یہ کہ واہگہ کی تقریب میں تو جنرل مشرف دائیں بائیں ہو گئے لیکن شام کو گورنر ہاوس لاہور میں ہونیوالے عشائیے میں بڑے طمطراق سے واجپائی کو سلیوٹ کرکے جناب نظامی سے کیا ہوا عہد توڑ دیا۔ یہ تھا کمانڈو جرنیل کا اصل چہرہ۔ وعدہ خلاف اور سازشی لڑاکو، جو کسی سے ڈرتا ورتا نہیں تھا۔
نظامی صاحب نے اس کالم نگار کو بڑی افسردگی سے بتایا کہ ساری مسلم لیگی قیادت میں صرف خواجہ سعد رفیق ایسا نڈر اور بہادر نکلا کہ واجپائی والے عشائیے میں شریک نہ ہوا باقی سارے مسلم لیگی اپنے بادشاہ سلامت کی خوشنودی کیلئے ایک دوسرے کو کہنیاں مار کر آگے بڑھتے اور واجپائی کے چرن چھوتے رہے۔
جب نواز شریف مخمصے کا شکار تھے کہ ایٹمی دھماکے کئے جائیں یا امریکہ کے اشاروں پرسر تسلیم خم کر دیاجائے تو بہادر اور جری مجید نظامی نے سینہ تان کر نواز شریف سے کہا تھا کہ ’’میاں صاحب اگر دھماکہ نئیں کرو گے تو عوام تہاڈا دھماکہ کر دیں گے ‘‘ اور یہ سن کر نواز شریف کو نہ چاہتے ہوئے بھی چاغی میں ایٹمی دھماکے کرنا پڑے۔
جناب مجید نظامی صرف اصولی موقف نہیں اپناتے تھے خم ٹھونک کر میدان میں بھی نکل آتے تھے انہوں نے سجاد علی شاہ نواز شریف تنازع میں کھل کر شاہ صاحب کا ساتھ دیا تھا اور انہیں اپنا چیف جسٹس لکھتے رہے۔ جنرل مشرف افتخار چودھری والے تنازعے میں اسلام آباد دفتر سے اپنی ذاتی گاڑی ان کے گھر بھجوادی کہ محاصرے میں چیف جج صاحب کے اہل خانہ سے سرکاری گاڑیاں چھین لی گئی تھیں۔
رسوائے زمانہ 9/11 کے بعد جنرل مشرف نے سینئر صحافیوں اور کالم نگاروں کو بتایا کہ افغان پالیسی میں تبدیلی ناگزیر ہو چکی ہے اگر ہم نے افغان پالیسی نہ بدلی تو امریکہ کشمیر کی تحریک آزادی کو دہشت گردی قرار دے گا۔
جناب نظامی نے مکہ ہوا میں لہراتے ہوئے جنرل مشرف سے کہا کہ اگرآپ نے کشمیر سے غداری کی تو اس کرسی پر قائم نہیں رہ سکیں گے۔جناب مجید نظامی کی دلیری اور برجستگی تو ضرب المثل بن چکی تھی۔ایک بار گورنر ہاوس لاہور میں ملاقات کے بعد الوداع کرتے ہوئے جنرل ضیا نے مجید نظامی کو کہا کہ ‘ذرا پاکستان کے مفاد کا خیال رکھیے گا‘۔ جس پر مجید نظامی نے برجستہ اور طنزیہ جواب دیا کہ ’ اب پاکستان کا مفاد آپ مجھے سکھائیں گے؟۔
جنرل ضیا بھارت کے دورے پر جارہے تھے شرارتاً نظامی صاحب کو ساتھ چلنے کی دعوت دی تو نظامی نے برجستہ جواب دیا ’’جنرل ٹینک تے بیھ کے جارہے او تے میں تیار آں ورنہ اپنی راہ پھڑو۔ وہ برملا کہتے کہ مجھے شاہین یا ابدالی کے ساتھ باندھ کر بھارت پر پھینک دو۔ اس بات پر یہ کالم نگار ان سے الجھتا کہ آپ ایسی غیر سنجیدہ بات نہ کیا کریں وہ مسکراتے ہوئے فرماتے ‘‘ تینوں ایس حکمت دا پتہ میرے بعد لگے گا! اور آج موذی مودی کی بولیاں دہلی نہیں اسلام آباد اور لاہور میں بولی جارہی ہیں تو جناب نظامی کی باتیں یاد آرہی ہیں جناب نواز شریف مرحوم غلام اسحق خاں کے ساتھ الجھے ہوئے تھے۔ اس وقت کے سپہ سالار جنرل وحید کاکڑ صدر اور وزیراعظم میں بیچ بچائو کی کوششیں کر رہے تھے کہ معاملہ صدر اور وزیر اعظم کے مستعفی ہونے تک پہنچ گیا۔نواز شریف نے جناب نظامی سے رہنمائی کی درخواست کی توانھوں نے کہا کہ جنرل کاکڑ کو آپ سے استعفیٰ طلب کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ آپ انھیں برطرف کر دیں بعد ازاں معاہدے کے تحت مرحوم غلام اسحق خاں اور نواز شریف مستعفی ہو گئے، سیاسی بحران ختم ہو گیا۔ ان ہی دنوں سپہ سالار سے مدیران کی ہونے والی ملاقات کے آغاز پر جنرل کاکڑ نے اچانک استفسار کیا کہ آپ میں سے کس دلیر ایڈیٹر نے نواز شریف کو مجھے برطرف کرنے کا مشورہ دیا تھا۔جناب نظامی صاحب بتایا کرتے تھے میں فوراً کھڑا ہو گیا ’جنرل صاحب میں نواز شریف نوں ایہہ مشورہ دتا سی‘ شاید جنرل وحید کاکڑ کو ایسی جرأت رندانہ کی توقع نہیں‘ اس لیے پہلو بچا کر نکل گئے۔
اسی طرح صاحب اسلوب دانشور بریگیڈئیر صدیق سالک شہیدکا اکلوتا صاحبزادہ اپنے کئے دھرے اور زودرنج طبیعت کی وجہ سے گھر سے اْٹھالیا گیا اس کے سارے جرنیل ‘‘تائے چاچے ‘‘حالات کی نزاکت کے پیش نظر اِدھر اْدھر ہوگئے جنرل پرویز مشرف کی ایمرجنسی پلس میں جنرل عزیز خان کے نام پر شہرت پانے والے میجر جنرل عزیز آئی ایس آئی میں اہم منصب پر موجود تھے وہ بھی ’بھتیجے‘ کو اپنے ماتحتوں کے چنگل سے چھڑانے میں ناکام ہوگئے تو یہ مجید نظامی تھے جنہوں نے اس کالم نگار کی درخواست پر کوالالمپور میں وزیراعظم نواز شریف کو مداخلت کا حکم دے کر جاں بخشی کرائی۔


نظامی صاحب موڈ میں ہوتے تو مزاح نگاری کے حیران کن مظاہرے کرتے ایک دفعہ خاصے دن ڈاکٹرز ہسپتال گذارنے کے بعد واپس آئے یہ کالم نگار حاضر ہوا تو فرمانے لگے تیرا انتظار سی اک گل کرنی اے’ عرض کی فرمائیے ‘ جنرل مشرف دا خیال اے میں ہسپتال اینے دن جنرل دے گلدستے لئی پیا رہیاں’ کیا عقل مت اے ساڈے جرنیلاں دی‘ میری جان تے بنی سی اینوں اپنے گلدستے دی فکر سی۔ وہ اپنے ساتھی مدیران کے رویوں سے بہت نالاں تھے جس کی تلخی ان کے لہجے سے جھلکتی آخری ملاقات میں اسلام آباد کے حالات کرید کرید کر پوچھتے رہے۔ خاکسار نے بتایا کہ بھارت کو پسندیدہ قوم اور کابل تک راہداری کی سہولت دینے پر فوج اور سیاسی حکومت میں پیدا ہونے والی خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی جا رہی ہے جناب نوا ز شریف ایسے لوگوں کے گھیرے میں پھنس چکے ہیں جو امن کی آشا کی آڑ میں پاکستان کا نظریاتی تشخص تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
خدا گواہ ہے کہ نظامی صاحب بالکل خاموش رہے، سر ہلاتے رہے ایک لفظ نہ بولے۔ مجھے نجانے کیسے خیال آیا کہ یہ شاید الوادعی ملاقات ہے عرض کی حضور اجازت دیں اور میرا سلام الوداع قبول کریں اس پر مسکراتے ہوئے کہا، ’دعا لئی تے آئیں گا ’نا‘ ۔
خداگواہ ہے کہ آخری سالوں میں وہ پیشہ وارانہ اعتبار سے شدید تنہائی کا شکار تھے انہوں نے بارہا فرمایا،اسلم کلاں رہ گیاں کس تے اعتبار کراں سمجھ نہیں آندی‘ان دنوں جسٹس (ر) فرخ آفتاب مرحوم کو ہر ملاقات کے دوران سائے کی طرح اْن کے ہمراہ پایا۔
لوگو یاد رکھنا وہ پاکستان کے لئے جئے اور تادم آخر ان کی دوستی اور دشمنی کا محور پاکستان رہا۔ پاکستان میں جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے لئے لڑتے بھڑتے فوجی اور پارلیمانی آمروں کو للکارتے للکارتے خود رخصت ہوگئے لیکن نوائے وقت کا عالی شان ادارہ پیچھے چھوڑ گئے اور ہم ان کے روشن نقوش پر قدم بقدم آگے بڑھتے رہیں گے۔
جناب حمید نظامی نے جو پودا لگایا مجید نظامی نے اس کو تناور درخت بنایا۔ صحافت کے میدان میں مجید نظامی جیسا مستعد ایڈیٹر پہلے نہیں آیا اور نہ ہی آئے گا۔ جس طرح نظامی صاحب اپنے دشمنوں خصوصاً بھارت کو للکارتے ہیں، اس پر بھارت انہیں اپنا دشمن اول سمجھتا ہے۔ ایڈیٹرز کی خواہش ہوتی ہے کہ حکمرانوں سے ملا جائے مگر حکمراں مجید نظامی سے ملنے کی خواہش کرتے تھے۔ان کی باتیں ،یادیں ختم ہونے کانام نہیں لیتیں۔ میرے لئے وہ پیرومرشد تھے ہرمسئلے ،ہرمعاملے میں رہنمائی کرنے والے اس لئے جب کسی مشکل میں گرفتار ہوتاسیدھا قدم بوسی کے لئے حاضر ہوجاتا انہیں جداہوئے مدتیں بیت گئیں خداگواہ ہے انہیں اب بھی
ہر نازک موڑ پر’ پیچیدہ مرحلے پر رہنمائی کیلئے
ہمیشہ اپنے پاس، اپنے ساتھ محسوس کرتا ہوں
سیک لگے جدسیوک تائیں،ترت سنے فریاداں
جب مرید کو گرمی لگتی ہے تو مرشد فورا فریاد سنتا ہے

محمد اسلم خان....چوپال

ای پیپر دی نیشن