ڈاکٹر مجید نظامی ‘ کشمیریوں کے پشتیبان

آبروئے صحافت محترم ڈاکٹر مجیدنظامی 26 جولائی رمضان کے آخری عشرے میں قیام پاکستان کے مبارک دن اپنے خالق حقیقی سے جا ملے تھے۔ مجید نظامی کی پاکستان اور نظریہ پاکستان سے محبت اور اس کے اظہار کا اللہ تعالیٰ نے خوب بھرم رکھا۔ مفکر پاکستان حضرت علامہ محمد اقبال اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد پاکستان میں ایسی شخصیت تھے جن پر پوری قوم فخر کر سکتی ہے۔ ہمارے حکمرانوں و سیاسی رہنمائوں کو جب بھی ضرورت پڑتی آپ سے رہنمائی لیتے تھے۔ جنہوں نے ان کی باتوں پر عمل کیاسرخرو ہوئے۔ قیام پاکستان سے پہلے کشمیری رہنمائوں کو جب بھی مشکل پیش آتی وہ مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال سے رہنمائی لیتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد ڈاکٹر مجید نظامی کی آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے رہنمائوں پر بڑی شفقت تھی۔ ان کی اسلام ، پاکستان ، دو قومی نظریہ اور تحریک آزادی کشمیر سے بڑی کمٹمنٹ تھی۔ بانی پاکستان کی ہدایت پر ان کے بڑے بھائی حمید نظامی نے 23مارچ 1940؁ء کو نوائے وقت کی صورت میں جس چراغ کو روشن کیا تھا۔ بہت مشکلات کے باوجود بجھنے نہ دیا۔ اپنی ایمانی قوت اور اصول پرستی کی بدولت اسے مشعل راہ بنا دیا ۔ ان کی اپنی ذات ، زندگی اور خدمات اظہار صحافت کے لئے مشعل راہ ہیں۔ وہ حصے رہنمائی لے سکتے ہیں انہوں نے اپنے کردار سے قلم کی حرمت کو سربلند رکھا اور عمر بھر اس دھرتی کا قرض اتارتے رہے۔ اور ہم سب کو ایسا کرنے کا سبق دیتے رہے۔ وہ ہر ملنے والے کی بات غور سے سنتے اور بہتر مشورہ دیتے۔ وہ لوگوں کی زیادہ سنتے اور بہت کم بولتے تھے۔ جو جملہ بولتے باکمال ہوتا۔ جو ان سے ملتا کچھ نہ کچھ حاصل ضرور کرتا۔ مارچ2003؁ء کو کشمیر لبریشن سیل کشمیر سینٹر لاہور میں حکومت آزاد کشمیر کی طرف سے بطور ڈائریکٹر جب میری تعیناتی کی گئی ۔ میں رہنمائی کے لئے ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے کہا کہ نظریہ پاکستان اور تحریک آزادی کشمیر پر کام کرنا اور کھل کر اظہار کرنا دو دھاری تلوار پر چلنے کے مترادف ہے۔ آزاد کشمیر کے حکمرانوں اور رہنمائوں کا نام لے کر کہا کہ کیا یہ تمہیں چلنے دیں گے۔ پھر مشوروں سے نوازا اور مجھے اپنی ذمہ داری کا احساس دلایا۔ مجھے محسوس ہوا کہ یہ شخص اندر سے کتنا مضبوط اور مکمل ہے۔ اس کے بعد ان سے بے شمار ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ میں نے نظریہ پاکستان اور تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے جو بھی تحریر بھیجی انہوں نے نوائے وقت میں جگہ دی۔ ان کی زندگی کے بعد بھی ان کے ادارے کی مجھ پر شفقت اور سرپرستی جاری ہے۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ جس کی بنیاد انہوں نے خود رکھی تھی۔ بہت مصروفیت کے باوجود نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں ان کا آنا روزانہ کا معمول تھا۔ ہر تقریب میں ان سے ملاقات ہوتی تھی۔ آخری وقت تک ان کی طرف سے نیاز مندی اور شفقت کا سلسلہ جاری رہا۔ ان کی زندگی میں اور ان کے بعد بھی نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں داخل ہوتے ہی تحریک پاکستان کا منظر یاد آتا ہے۔ اب یہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ سابق صدر پاکستان محمد رفیق احمد تارڑ ، وائس چیئرمین ڈاکٹر رفیق احمد ، سیکرٹری شاعر رشید کی قیادت میں ان کی پوری ٹیم ہمہ وقت مصروف رہتی ہے۔ نظریہ پاکستان اور تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے مجید نظامی اور موجودہ قیادت کے کردار کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ زمانہ طالب علمی میں تحریک پاکستان کے دوران قائد اعظم محمد علی جناح کے نقش قدم پر چلنا شروع کیا۔ اور ساری زندگی انہی نقوش کو جزو ایمان بنائے رکھا۔ تحریک پاکستان ، تحریک ختم نبوت، تحریک نظام مصطفی تحریک ناموس رسالت ، بنگلہ دیش نا منظور تحریک ، تحریک تکمیل پاکستان ، تحریک بحالی جمہوریت ، دفاعی نظریہ پاکستان ، غرض ہر موقع پر ان کا کردار مثالی اور نمایاں رہا۔ اور جس قدر محبت کرتے تھے اس کا اظہار ان کے اخبارات میں روزانہ اشاعت سے ہوتا تھا۔ جدوجہد آزادی کشمیر کو اپنے اداریوں ، مضامین اور خبروں سے بے حد تقویت حاصل ہوتی اور ہو رہی ہے۔ ان کی جانشین محترمہ رمیضہ نظامی اور پوری ٹیم نے ان کے مشن کو جاری رکھا ہوا ہے۔ کشمیری ان کی کمی شدت سے محسوس کرتے ہیں۔ پاکستان کے تمام سول اور فوجی حکمران ان کی قیمت نہ لگا سکے ۔ بڑی سے بڑی لالچ اور خوف ان کے عزم کو کمزور نہ کر سکا۔ جب حکمرانوں کو احساس ہوتا تو اظہار کرتے اور تسلیم کرتے کہ مجید نظامی بڑا انسان تھا۔ پاکستان میں بھارت کے سب سے بڑے دشمن تھے۔ انہوں نے اپنی تحریروں اور تقریروں سے کئی مجاہد تیار کیے جو پاکستان دشمن کے مذموم عزائم کو انشاء اللہ کبھی پایۂ تکمیل تک نہ پہنچنے دیں گے۔ وہ ملک کی سیاسی اور فوجی قیادت کو وطن عزیز کی شہ رگ کشمیر کو بھارتی چنگل سے آزاد کرانے کی یاددہانی کا معاملہ ہو ، ایٹمی دھماکے کرنے ہوں ، مجید نظامی کا کردار ہمیشہ نا قابل فراموش رہا۔ قومی معاملات اور مسائل پر ان کا مئوقف پاکستان کے مفاد سے جڑا ہوتا۔ وہ کبھی مصلحت کا شکار نہ ہوئے۔ بانی پاکستان ، قائد اعظم محمد علی جناح کی آخری خواہش تھی کہ کشمیر کا کیا بنے گا۔ ڈاکٹر مجید نظامی بھی زندگی میں کشمیر کی آزادی اور پاکستان سے الحاق کی شدید خواہش مند تھے۔ وہ پاکستانی حکمرانوں کو باور کراتے رہے کہ مملکت پاکستان وحدت اور بقاء کو یقینی بنانے کی خاطر کشمیر کو بھارتی قبضے سے آزاد کرانا اور پاکستان سے الحاق ناگزیر ہے۔ کشمیری رہنمائوں اور عوام آپ کو مجاہد کشمیر کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ پاکستان میں کشمیریوں کے سب سے بڑے وکیل تھے۔ شاید یہ نقصان پورا نہ ہو سکے۔

ای پیپر دی نیشن