امام صحافت کا لقب پانے والے ڈاکٹر مجید نظامی مرحوم ایک منفرد نوعیت کے صحافی تھے جنہوں نے ذاتی و دوستانہ تعلقات کو کبھی قومی اور ملی مفادات کے تقاضوں پر حاوی نہیں ہونے دیا، بلکہ ہمیشہ ملکی مفادات کو مقدم رکھا۔ ڈاکٹر مجید نظامی جیسے قابل فخر صحافی صدیوں میں قوموں کو نصیب ہوتے ہیں، جناب مجید نظامی نے اپنی زندگی کے ستر قیمتی سال صحافت برائے خدمت کے تحت وقف کردیئے ، اور زمہ دارانہ صحافت میں کبھی کسی دباؤ کو قبول نہیں کیا، بلکہ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہمیشہ جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کی روایت قائم رکھی۔ اور اسلامی فلاحی مملکت پاکستان کی جغرافیائی و نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لئے ہمیشہ سینہ سپر رہے۔ جہاں تک بھارت کا تعلق ہے جس طرح قائد اعظم ہندوقیادت کی عیاری اور مکاری کو خوب جان گئے تھے اور اس سلسلے میں انہیں کوئی انکے موقف سے نہیں ہٹا سکتا تھا، اسی طرح ڈاکٹر مجید نظامی بھی ملک دشمن بھارت کی عیاری سے خوب واقف تھے اور دشمن کی ہر چال کے سامنے بے باقی سے ڈٹے رہتے تھے۔ انہیں موت ملی تو رمضان المبارک کی ستائیسویں شب میںجو کہ بڑی ہی تکریم والی رات ہے ،جو نزول قرآن کی بابرکت شب ہے،جو قیام پاکستان کی مبارک ساعت ہے۔ڈاکٹر مجید نظامی نے اس باسعادت رات کی طلوع فجر سے قبل کی ساعتوں میں داعی اجل کو لبیک کہا۔ بلاشبہ رمضان المبارک کی ایسی مبارک ساعتوں میں موت بھی خوش بختوں کو ہی نصیب ہوتی ہے۔ بحیثیت ایڈیٹر ڈاکٹر مجید نظامی نے روزنامہ نوائے وقت کو نظریہ پاکستان کی ایک بہترین پالیسی دی جس پر یہ ادارہ آج تک کاربند ہے اور اسی وجہ سے ملک کے محب وطن اور سنجیدہ طبقوں میں ہمیشہ ہی سے مقبول ترین اخبار رہا ہے۔ جناب مجید نظامی نے صحافت کو ایک پیشہ نہیںبلکہ ایک مشن سمجھا اور ساری زندگی انتہائی دیانتداری، خوداری، بہادری اور بے پناہ محنت شاقہ کے ساتھ اس مشن کو جاری رکھا، ڈاکٹر مجید نظامی شعبہ صحافت کے تمام اسرار و رموز سے بخوبی واقف تھے کیونکہ انہوں نے ابتداء میں اخبار کے صفحات جوڑنے تک کا کام بھی اپنے ہاتھوں سے انجام دے رکھا تھا۔ دوسری طرف انہوںنے ایک قومی رہنما کے طور پر بھی بے شمار خدمات انجام دیں۔ ملک میں مختلف قسم کے حکمران اور ادوار آئے لیکن انہوں نے ہمیشہ نظریہ پاکستان کی پاسداری، اکابرین ملت سے محبت، دیانتدارانہ صحافت اور جمہوریت کی حمایت اور ڈکٹیٹرشپ کی مخالفت کا حق ادا کیا۔ جناب مجید نظامی پاکستان کو ایک جدید اسلامی جمہوری فلاحی مملکت دیکھنا چاہتے تھے اور اس مقصد کیلئے ان کی بہترین کوششوں کا ایک زمانہ معترف ہے۔ جمہوریت سے ان کی کمٹمنٹ کسی بھی شک و شبہ سے بالاتر ہی نہیں بلکہ ہر ذی شعور پاکستانی کیلئے ایک مثال ہے۔ بعض ایسے مواقع جہاں بہت سارے لوگ مصلحت کا شکار ہوتے رہے لیکن ڈاکٹر مجید نظامی جمہوریت اور سچائی کا علم بلند کئے تن کر کھڑے رہے۔ ان کو اپنے اصولوں کی پاسداری میں معاشی طور پر نقصان بھی برداشت کرنا پڑا لیکن انہوں نے اس کی کبھی پرواہ نہ کی۔ ایٹمی دھماکوں سے کچھ پہلے جب اس وقت کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے ڈاکٹرمجید نظامی سے مشورتاً پوچھا کہ بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں مجھے کیا کرنا چاہئے توانہوں نے تاریخی جملے کہے کہ’’ میاں صاحب اگر آپ نے دھماکے نہ کئے تو عوام آپ کا دھماکہ کردیں گے‘‘۔ ڈاکٹر مجید نظامی کی زندگی کا اوڑھنا بچھونا اسلام اور پاکستان کا استحکام رہا اور انکی زندگی کا مشن اقبال اور قائد کے افکار اور نظریہ پاکستان کی ترویج اور اشاعت رہا۔ نظریہ پاکستان اور اکابرین ملت کے خلاف جب بھی کسی نے ہرزہ سرائی کی تو نوائے وقت نے فوراً اپنا فریضہ سر انجام دیا اور دلائل اور حقائق کی بنیاد پر ایسے لوگوں کو منہ توڑ جواب دیا۔ ڈاکٹر مجید نظامی نے قوم کی صحیح نظریاتی تربیت کیلئے نظریہ پاکستان ٹرسٹ قائم کیا جہاں تقریباً سارا سال نوجوان نسل کیلئے علمی و عملی پروگراموں اور کورسوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور ان پروگراموں سے صرف نوجوان ہی نہیں بڑی عمر کے لوگ بھی فیض یاب ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں یہ نظریہ پاکستان پر اپنا پورا یقین رکھنے والے لوگوں کیلئے ایک پلیٹ فارم کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ جہاں اکابرین ملت کو یاد کرنے کے لئے تواتر کے ساتھ تقریبات کا اہتمام جاری رہتا ہے۔ اس طرح ڈاکٹر مجید نظامی نے اپنی شبانہ روز کوششوں سے ایک ایسی نسل تیار کی ہے جو انشاء اللہ نظریہ پاکستان کے مخالفین کا ہر محاذ پر ڈٹ کر مقابلہ کرتی رہے گی۔ ڈاکٹر مجید نظامی تحریک پاکستان کے گمنام کارکنان کی بے پناہ پذیرائی کرتے اور انہیں یہ احساس دلاتے رہے کہ وہ ہمارے لئے انتہائی قابل احترام ہیں۔ ملک و ملت کے لئے مثالی خدمات سرانجام دینے والے فخر صحافت ڈاکٹر مجید نظامی مرحوم ہمارے دلوں میں آج بھی زندہ ہیں، ان کی برسی کے موقع پر ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو نورسے بھردے ، اور ان کے درجات بلند فرمائے، آمین۔