شاہد رشید
اِس دارِ فانی میں جب تک، کوئی انسان زندہ رہتا ہے، اُس کے دل میں عالمِ جاودانی میں جا بسیرا کرنے والے، اپنے پیاروں کا غم بھی زندہ رہتا ہے اور اس غم سے ہی اُس کے دل میں اُن کی یادوں کے چراغ جلتے رہتے ہیں۔ محترم ڈاکٹر مجید نظامی 26جولائی 2014ء کو خالقِ حقیقی سے جا ملے لیکن اُن کے رشتہ داروں، دوستوں،نظریاتی ساتھیوں اور عقِیدت مندوں کے دلوں میں اُن کا غم ایک خوشبو بن کر مہک رہا ہے۔ خوشبو اِس لئے کہ پُرانی اور نئی نسل کے گوشہ ہائے سماعت میں جناب ڈاکٹر مجید نظامی کا پیغام بھی بانگِ درا کی طرح گونج رہا ہے۔ علّامہ اقبالؒ، قائداعظمؒ اور مادرِ ملّتؒ کے افکار و نظریات کے مُفسّر و مُبلّغ اور نظریۂ پاکستان کے علمبردار کی حیثیت سے جناب ڈاکٹر مجید نظامی کی خدمات لاثانی اور لافانی ہیں۔ علّامہ اقبالؒ نے اپنی نظم ’’ فلسفۂ غم‘‘ میں کہا تھا ؎
مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں
یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جُدا ہوتے نہیں
مرنے والوں کی جبِیں روشن ہے اس ظلمات میں
جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں
جناب ڈاکٹر مجید نظامی کی جبیں تو چاندسے بھی زیادہ روشن ہے اور اُن کا مشن مینارۂ نور۔ صوفیائے کرام ؒ کی تعلیمات کے مطابق انسان کی روح تو اُس کے مرنے کے بعد بھی زندہ رہتی ہے۔ کسی شاعر نے کہا تھا کہ ؎
پھول ہیں تازہ دم ایسے کہ ہنسے دیتے ہیں
رُوح پھونکی ہے صبا نے دمِ عیسیٰؑ بن کر
جناب ڈاکٹر مجید نظامی جب تک حیات رہے، ارکانِ ملّتِ بیضا کے دلوں میں دمِ عیسیٰؑ بن کرانہیں تازہ دم رکھتے رہے۔جناب ڈاکٹر مجید نظامی کی ادارت اور نگرانی میں شائع ہونے والے روزنامہ ’’ نوائے وقت‘‘ اور "The Nation"، وقت ٹی وی اور دوسری مطبوعات تو اپنی مثال آپ ہیں ہی لیکن اُن کی نگرانی اور قیادت میں دو نظریاتی اداروں ’’ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ اور ’’تحریکِ پاکستان ورکرز ٹرسٹ‘‘ نے بھی علّامہ محمد اقبالؒ، قائداعظمؒ اور مادرِ ملّتؒ کا نورِ بصیرت دُنیا بھر میںعام کرنے کے لئے اہم کردار ادا کِیا ہے۔
جناب ڈاکٹر مجید نظامی کے بے شمار دوست، نظریاتی ساتھی،عقیدت مند اور مُرید تھے اورہیں۔ مَیں بھی اُن کا ادنیٰ کارکن اور سپاہی تھا اورہوں۔ مجھے اُن کے زیر سایہ 25سال تک کام کرنے کا موقع ملا۔ یہ میری خوش قسمتی ہے۔ یوں تودو قومی نظریہ (نظریۂ پاکستان) پہلے ہی خون بن کر میری رگوں میں دوڑ رہا تھا لیکن جناب ڈاکٹر مجید نظامی کی قُربت، شفقت اور عنایت نے مجھے رُوحانی اور نظریاتی طور پرمالا مال کر دیا۔ میرے بزُرگوں کا تعلق مشرقی پنجاب کے مردم خیز شہر امرتسر سے تھا۔ خاندان کے کئی افراد 1947ء میں ہندو مہا سبھائی غنڈوں اور سکھوں سے لڑتے ہُوئے شہید ہُوئے۔ میںآزاد پاکستان میں پیدا ہوا۔میں نے ہوش سنبھالا تو علّامہ محمد اقبالؒ، قائداعظمؒ اور تحریکِ پاکستان کی داستان، مجھے اپنے بزرگوں کے ذریعے ازبر ہو گئی۔ ہماراخاندان امرتسر سے ہجرت کر کے لاہور میں آباد ہوا۔ تحریکِ پاکستان کے کارکن سیّد منظور حسین بخاری ایڈووکیٹ عزیز داری تھی ۔ دسمبر 1971ء میں پاکستان دو لخت ہُوا تو مشرقی پاکستان میں دو قومی نظریہ کے علمبردار، سلہٹ ریفرنڈم کے ہیرو، جناب محمود علی نے اپنی زمین و جائیداد چھوڑ کر پاکستان کو اپنا وطن بنا لیا۔ بخاری صاحب سے اُنکے تعلق کی نسبت سے میری تحریکِ تکمیل پاکستان کے بانی صدر جناب محمود علی سے مُلاقات ہوئی۔ زمانہ ء طالبعلمی کی سیاست میں سرگرم تھا، محمود علی صاحب مجھ سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ ایک عام کارکن کی حیثیت سے ان کی زیرنگرانی کام کرتارہا، بالآخر تحریکِ تکمیل پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل کے عہدے پر پہنچا۔ گویا وہ۔ ’’ نظریۂ پاکستان‘‘ کے تجربہ کار اُستاد تھے۔ جناب محمود علی نے اپنی صحبت اور شفقت سے مجھے اس قابل بنا دیا تھا کہ میں جناب ڈاکٹر مجید نظامی کے پاس بیٹھنے اور ’’ نظریۂ پاکستان‘‘ سے متعلق اُن سے مزید کچھ سیکھنے کے قابل ہو سکوں۔ محترم ڈاکٹر مجید نظامی ’’نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کے چیئر مین تھے اور جب مورخہ 16اپریل2008ء کو انہوں نے مجھے ٹرسٹ کا سیکرٹری بنایا تو مجھے احساس ہوا کہ میں جناب ڈاکٹر مجید نظامی کی’’نظریاتی یونیورسٹی‘‘ سے فارغ التحصیل ہوں اور جناب ڈاکٹر مجید نظامی نے میرے سر پر’’دستارِ فضیلت‘‘ سجا دی ہے۔
ایوانِ کارکنانِ تحریکِ پاکستان لاہور میں۔ ’’نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ اور ’’تحریکِ پاکستان ورکرز ٹرسٹ‘‘ کے اشتراک سے جناب ڈاکٹر مجید نظامی کی قیادت میں ان کی زندگی میں تقریباً ساڑھے چار ہزار چھوٹی بڑی تقاریب منعقد ہوئیں جن میں پاکستان کی اہم شخصیات بحیثیت مہمانانِ گرامی اور مقررین شریک ہوتی رہیں۔ان نظریاتی سرگرمیوں کے طفیل یہ قومی نظریاتی ادارہ ایک عوامی تحریک (Mass Movement) کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ ان سرگرمیوں سے عوامی شعور کے پہیے کو حرکت ملی ہے اور عوام الناس یہ سوچنے لگے ہیں کہ قیام پاکستان کے حقیقی مقاصد کو کیونکر حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس ادارے کی سرگرمیاں ہمہ جہت ہیں تاہم ان کا محور و مرکز ہماری نوجوان نسل ہے۔ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ سمجھتا ہے کہ جس طرح تحریک پاکستان میں نوجوانوں نے ہر اول دستے کا کردار ادا کیا تھا‘ قائداعظم محمد علی جناحؒ کے وژن کے مطابق وطن عزیز کو ایک جدید اسلامی ‘ جمہوری اور فلاحی مملکت کے قالب میں ڈھالنے کے لئے بھی ستاروں پر کمندیں ڈالنے کے آرزو مند نوجوانوں کو آگے لانا ہو گا۔ اس مقصد کے لئے اس ادارے نے ’’پاکستان آگہی پروگرام‘‘کے نام سے ایک نظریاتی تعلیمی و تربیتی پروگرام شروع کیا ہوا ہے۔ 25 دسمبر 2008ء کو اس پروگرام کا آغاز ہوا اور اب تک 3 ملین سے زائد طلبا و طالبات اس سے استفادہ کر چکے ہیں۔ علاوہ ازیں تعلیمی اداروں میں ملی و قومی اقدار کو بڑھاوا دینے کے لئے ’’نظریۂ پاکستان سوسائٹیز‘‘ کا قیام بھی جاری ہے۔ موسم گرما کی تعطیلات کے دوران 6 سے 13 سال کی عمر کے بچوں کے لئے ہر سال نظریاتی سمر سکول منعقد کیا جاتا ہے۔ تمام اہم قومی ایام کو باوقار انداز میں منایا جاتا ہے۔ مشاہیر تحریک پاکستان کی حیات و خدمات کو اجاگر کرنے کی خاطر ان کے ایامِ ولادت ووفات پر خصوصی لیکچرز کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ لاہور سے باہر کے اضلاع نیز بیرون ملک ’’نظریۂ پاکستان فورمز‘‘ کے قیام کا عمل بھی جاری ہے۔
بھارت کی معاندانہ سوچ اور آبی جارحیت کے خلاف عوامی شعور بیدار کرنے میں جناب مجید نظامی کا ہمیشہ سے کلیدی کردار رہا۔ایوانِ کارکنانِ تحریکِ پاکستان لاہور میں۔پاکستان کے تمام کور ایشوز مثلاً مسئلہ کشمیر سے متعلق عوام کی رہنمائی کے لئے لیکچرز‘ سیمیناروں اور فکری و خصوصی نشستوں کا باقاعدگی سے اہتمام اس فورم کے ذریعے مرحوم کا مقصد حیات رہا۔ غرضیکہ محترم مجید نظامی کے وضع کردہ رہنما اصولوں پر گامزن رہتے ہوئے نظریۂ پاکستان ٹرسٹ پاکستانی قوم کی ملی و قومی امنگوں کا ترجمان ادارہ بن چکا ہے اور ان کے مشن کو آگے بڑھا رہا ہے۔ ان دنوں بھی جب کورونا وائرس کی وباء کے باعث حکومتی ہدایات کے تحت آج کل عوامی اجتماعات پر پابندی ہے‘ نظریۂ پاکستان کی تمام سرگرمیاں آن لائن منعقد کی جا رہی ہیں۔ ادارے کے اغراض و مقاصد کو آگے بڑھانے کے لئے ’’ماہنامہ نظریۂ پاکستان‘‘ اور ’’ماہنامہ ہونہار‘‘ کے علاوہ دیگر مطبوعات کی اشاعت مسلسل جاری ہے۔
جناب ڈاکٹر مجید نظامی نے کبھی اپنے لئے حکومت کے کسی عہدے کی خواہش نہ رکھی۔ انہیں کئی بار پاکستان کی صدارت بھی پیش کی گئی لیکن انہوں نے معذرت کر لی۔ اُن کی سب سے بڑی خوہش تھی کہ ’’مسلم لیگ کے نام سے جن سیاسی جماعتوں نے اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا رکھی ہے، وہ متحد ہو کر ایک مضبوط اور مستحکم جماعت کی صورت میں ڈھل جائیں۔‘‘ جناب ڈاکٹر مجید نظامی قائداعظمؒ کایہ فرمان اکثر دہرایا کرتے تھے کہ ’’کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور ہمیں اِس شہ رگ کو بھارت کے پنجے سے چھڑانا ہے۔‘‘ وہ یہ بھی کہاکرتے تھے کہ ’’بنگلہ دیش کو پاکستان میں شامل کرنا ہماری مسلح افواج اور سیاستدانوں کا فرض ہے۔‘‘ جناب ڈاکٹر مجید نظامی کی منصوبہ بندی اور کوششوں سے ہی لاہور میں ’’ ایوانِ اقبالؒ‘‘ تعمیر ہوا اور ان کی ذاتی کوششوں سے ’’ ایوانِ قائداعظمؒ‘‘ کی تعمیر کا آغاز ہوا جو جزوی طور پر فنکشنل ہو چکا ہے۔ انشاء اللہ یہ دونوں ایوان قوم کو ہمیشہ جناب ڈاکٹر مجید نظامی کی یاد دلاتے رہیں گے۔
ایوانِ کارکنانِ تحریکِ پاکستان لاہور میںمنعقدہ تقریبات کے اختتام کے بعد جناب ڈاکٹر مجید نظامی اپنے دفتر میں منتخب دوستوں، ساتھیوں اور عقیدت مندوں کے ساتھ اپنی مجلس سجایا کرتے تھے۔ گزشتہ پانچ سالوں میں ایوان کے دفتر میں روزانہ رونق افروز رہتے اور ٹرسٹ‘‘ کے عہدیداروں اور کارکنوں سے مل کر اندرون اور بیرون ملک علّامہ محمد اقبالؒ، قائداعظمؒ اور مادر ملّت ؒ کے افکار و نظریات کو نئی نسل کے دلوں میں راسخ کرنے کے لئے انہیں اپنی قیمتی مشوروں سے نوازا کرتے۔
ایوانِ کارکنانِ تحریکِ پاکستان کے دفتر میں جناب ڈاکٹر مجید نظامی عام طور پر گیارہ بجے صبح تشریف لاتے تھے سٹاف کے تمام ارکان 10بجے سے ہی اُن کا انتظار شروع کردیتے۔ ساتھی ارکان اور میرے دل میںگویا دفتر میں آویزاں اُن کی تصویریںآج بھی ان لمحوں کی یاد دلاتی رہتی ہیں کہ مجھے اور میرے سینئر اور جونئیر دوستوں کو اُن کا غم ضرور تازہ رکھنا چاہیے ۔بلا شبہ جناب ڈاکٹر مجید نظامی کی کمی سے پیدا ہونے والا خلا تو کبھی پر نہ ہو پائے گا مگر اس احساس کے ساتھ ساتھ اُن کے پیغام کو عام کرنا بھی ہماری زندگی کا مقصد ہونا چاہیے۔ کم از کم مجھے تو یہ محسوس ہو تا ہے کہ جناب ڈاکٹر مجید نظامی کا دستِ شفقت ہر لمحے میرے سرپر رہتا ہے اور وہ زندگی کے ہر معاملے میں ہماری رہنمائی فرماتے ہیں ۔ع
تو جاچکا پھر بھی میری محفل میں ہے
فنش،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
تو جاچکا پھر بھی میری محفل میں ہے
Jul 26, 2020