آبروئے صحافت

مجید نظامی ادب اور صحافت کی دنیا کا معتبر نام‘ آبروئے صحافت‘ ستارہ صحافت‘ نگینہ ادب کہا جائے تو مبالغہ نہیں ہوگا۔ اُن کی صحافت کا سفر طویل ہے۔ باقاعدہ طور پر 25 فروری 1962ء کو روزنامہ نوائے وقت کی باگ ڈور حمید نظامی مرحوم کی رحلت کے بعد سنبھالی۔ اس اخبار کو اپنی جانفشانی سے صحیح معنوں میں عوام کی آرزوئوں اور امنگوں کا ترجمان بنا دیا۔ پاکستانی قوم  کی خواہشوں کو اس اخبار کے ذریعے شرمندہ تعبیر کیا۔ سچائی تک رسائی‘ ہر خبر باوثوق‘ ہر خبر تحقیق شدہ‘ عوام کی آواز سنو اور ہم بے باک و نڈر ہیں‘کی صدائیں اُن کے دور صحافت میں سنی جاتی رہیں۔ 
آبروئے صحافت ڈاکٹر مجید نظامی تین اپریل انیس سو اٹھائیس کو سانگلہ ہل میں پیدا ہوئے‘ مجید نظامی مرحوم نے اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں حصول تعلیم کے دوران تحریک پاکستان میں سرگرم حصہ لیا اور 1946ء کے تاریخ ساز انتخابات میں مسلم لیگی امیدواروں کی کامیابی کے لیے انتخابی مہم میں پیش پیش رہے‘ تحریک پاکستان میں آپ کی خدمات کے اعتراف میں پاکستان کے پہلے وزیراعظم شہید ملت نوابزادہ لیاقت علی خان نے کالج کے دوسرے طلبہ کے ساتھ انہیں بھی ’’مجاہد پاکستان‘‘ کی سند اور تلوار عطا کی۔
وہ ایک دبنگ اور دلیر ایڈیٹر تھے۔ سول حکمران ہو یا فوجی حکمران کوئی بھی مجید نظامی کو ان کے اصولوں سے نہیں ہٹا سکا۔ نظریہ پاکستان سے ان کی کمٹمنٹ اور کشمیر پربھارتی غاصبانہ قبضے کے خلاف ان کی نفرت دوستوں دشمنوں سب پر واضح تھی۔ بھارت سے پاکستان کے تعلقات کے بارے میں ان کا خاص نقطہ نظر تھا جو نوائے وقت کے اداریوں سے ظاہر ہوتا تھا۔ وہ شعلہ بیان مقرر تو نہیں تھے لیکن ان کے د ھیمے لہجے میں گفتگو اتنی کاٹ دار ہوتی تھی کہ مخالفین کے دل دہل جاتے تھے‘ آپ 27 رمضان المبارک 26 جولائی 2014کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ 
مجید نظامی نے ہمیشہ اپنے قلم سے پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کا کام لیا اور اس کے اسلامی نظریاتی تشخص کے مخالفین کا سخت محاسبہ کیا۔ انہوں نے اپنی صحافتی زندگی کی ابتدا میں جن  اصولوں کو اپنایا‘ آخر تک ان پر ثابت قدم رہے۔ مجید نظامی جرأت ایمانی سے لبریز انسان تھے‘ لہٰذا آمر فوجی تھا یا سویلین‘ ہر کسی کے سامنے ہمیشہ کلمۂ حق کہا۔ آپ ساری زندگی اسلام کی سربلندی‘ پاکستان کے استحکام و ترقی اور نظریۂ پاکستان کے فروغ کیلئے کوشاں رہے۔ مجید نظامی کے افکار و نظریات زندہ جاوید ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ مجید نظامی کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس مملکت کو قائداعظم اور علامہ اقبال کے نظریات و تصورات کے مطابق ایک جدید اسلامی فلاحی جمہوری مملکت بنانے کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔
 مجید نظامی ایک ہمہ جہت شخصیت تھے۔ ان کی شخصیت میں ایک کشش اور جاذبیت تھی اور جس سے وہ بات کر رہے ہوتے تھے اسے اپنے اندر جذب کر لیتے تھے۔ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ مجید نظامی ہماری قومی تاریخ کا ایک درخشاں کردار اور صحافتی تاریخ کا سنہرا باب تھے۔ انہیں بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کی زیر قیادت تحریک پاکستان میں سرگرم کردار ادا کرنے کا اعزاز حاصل تھا۔ تعمیر پاکستان کے ضمن میں بھی اُنہوں نے انمٹ اور گرانقدر خدمات سرانجام دیں۔ وہ جرأت ایمانی سے لبریز انسان تھے‘ لہٰذا آمر فوجی تھا یا سویلین‘ ہر کسی کے سامنے ہمیشہ کلمۂ حق کہا۔ ان کے دل و دماغ دین اسلام اور پاکستان سے محبت کی آماجگاہ تھے۔ وہ صحیح معنوں میں عاشق رسولؐ تھے۔ اگر میں یہ کہوں کہ وہ پاکستان کے بدخواہوں کے لئے شمشیر برہنہ تھے تو ہرگز مبالغہ نہیں ہوگا۔ ان کی شخصیت سے حب الوطنی کی کرنیں منعکس ہوتی تھیں جو اردگرد موجود افراد کو بھی اس مملکت کی محبت میں سرشار کر دیتی تھیں۔ ان کی اصول پرستی‘ اولوالعزمی اورکلمۂ حق کہنے کی گونج بیرون پاکستان بھی سنائی دیتی تھی۔ یورپ میں مقیم پاکستانی تارکین وطن مجید نظامی کو دل و جان سے پیار کرتے تھے‘ قومی و عالمی معاملات کے بارے میں ان کے خیالات کو بڑی اہمیت دیتے تھے۔ پاکستانی تارکین وطن کے مسائل میں ان کی گہری دلچسپی اور روزنامہ نوائے وقت کے ذریعے انہیں اجاگر کرنے کی بدولت وہ انہیں اپنا سرپرست تصور کرتے تھے۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت اطمینان اور خوشی محسوس ہوتی ہے کہ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ ان کے مشن کو ثابت قدمی سے آگے بڑھا رہا ہے۔ انتہائی قد آور شخصیت ہونے کے باوود وہ عجز و انکسار کے پیکر تھے۔
 مجید نظامی نے صحافت‘ اصول پرستی‘ کشمیر کے الحاق پاکستان‘ حضور اکرمؐ کے ساتھ محبت و عقیدت‘ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ‘ کے سلسلے میں ایسا معیار قائم کیا جو ہماری تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

ای پیپر دی نیشن