حکمرانوں کیلئے کباب میں ہڈی 

حمید نظامی کے دیرینہ ساتھی ڈاکٹر عبدالسلام خورشید نے ان کے بارے لکھا تھا۔ ’’حمید نظامی ان صحافیوں میں شامل تھے جو محض عوام کی ترجمانی کے نہیں بلکہ رہنمائی کے بھی قائل تھے ‘‘۔ یہی بات حضرت مجید نظامی کے بارے بھی کہی جائے تو غلط نہیں ہوگی۔ حضرت مجید نظامی کے ساتھ برسوں کام کرنے والے ملک کے سینئر اخبار نویس نے اپنے کالم میں ایک واقعہ لکھا تھا۔ ’’ستمبر1999کے اواخر میں جب میاں نواز شریف جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف کے منصب سے الگ کر کے جنرل ضیاء الدین کو فوج کا سپاہ سالار بنانے کا ذہن بنا چکے تھے تو میاں محمد شریف مرحوم اپنے دونوں صاحبزادگان، وفاقی وزیروں اور سردار عبدالقیوم خاں کو لے کر بزرگ صحافی حضرت مجید نظامی کے گھر پہنچے اور مشورہ مانگا۔ حضرت نظامی نے انہیں ایک اور آرمی چیف سے پنگا نہ لینے کا مشورہ دیا۔ وہ میاں نوا ز شریف سے کہنے لگے کہ آخر آپ کی کسی آرمی چیف اور چیف جسٹس سے بنتی کیوں نہیں ؟ سردار عبد القیوم خاں ، حضرت نظامی کے دلائل سن کر میاں شریف سے کہنے لگے کہ ان کا مشورہ صائب ہے ۔ آپ یہ مہم جوئی ہرگز نہ کریں۔ بعد ازاں سردار عبدالقیوم نے مجھے بتایا کہ میں شریف برادران کے وکیل کی حیثیت سے میسن روڈ گیا تھا۔ مگر حضرت نظامی کی بات معقول اور وزیر اعظم کی شکایت بے وزن لگی ۔ اسی لئے میں نے اپنی رائے تبدیل کر لی ۔ بہر حال میاں شریف اپنے فیصلے پر ڈٹے رہے اور بیٹے کی وزارت عظمیٰ کے علاوہ جمہوریت کی قربانی دے کر ہی ٹلے ‘‘۔ حضرت مجید نظامی اپنے موقف کے بارے میں بہت واضح تھے ۔ ان کا رویہ معذرت خواہانہ ہرگز نہیں تھا۔ وہ قومی مسائل پر دو ٹوک رائے رکھتے تھے ۔ وہ اپنے خیالات کا اظہار ڈنکے کی چوٹ پر کرتے رہتے ۔ اپنی انڈیا دشمنی انہوں نے کبھی نہیں چھپائی ۔ انہیں گول مول باتیں کرنا آتا ہی نہیں تھا۔ جب پہلی مرتبہ میاں نواز شریف کیلئے ایک مجمع عام میں قائد اعظم ثانی کا نعرہ بلند ہوا تو وہ بھری مجلس میں یہ کہے بغیر نہ رہ سکے ۔ ’’یہ قائد اعظم ثانی کیسے ہوگئے ؟یہ تو تحریک استقلال سے آئے ہیں ‘‘۔حق گوئی کے اظہار میں انہیں کسی کی مطلق پرواہ نہیں ہوتی تھی۔ جس زمانہ میں انہوں نے آصف زرداری کو مرد حُر کا تمغہ دیا ان دنوں آصف زرداری مسٹر ٹین پرسنٹ کے نام سے معروف تھے۔ بہادر نظامی کو زرداری کا بہادری سے جیل کاٹنا اچھا لگا۔ سو انہوں نے کسی کی پرواہ کئے بغیر زرداری کی بہادری کی تعریف کر دی ۔ انہیں ایک ایسا کامیاب ایڈیٹر سمجھاجاتا ہے جس نے ملک میں ’’نوائے وقت ‘‘ کا ایک وسیع حلقہ قائم کیا۔ کئی گھرانوں میں پون ، صدی سے زیادہ عرصہ سے ’’نوائے وقت ‘‘ اخبار آرہا ہے ۔ پھر وہ اپنے ’’نوائے وقتیا‘‘ ہونے پر فخر بھی کرتے ہیں۔ مجید نظامی نے اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے’ نوائے وقت ‘ کو اردو صحافت کا اہم ترین حصہ بنا دیا۔ پھر ملکی سیاست میں بھی ان کا کردار بہت اہم رہا۔ پاکستان میں جمہوریت کی ڈکٹیٹر شپ سے چپقلش میں جمہوریت کیلئے لڑنے والوں کو ان کی ہمیشہ مدد اور رہنمائی حاصل رہی ۔ جنرل ایوب خاں ،جنرل یحییٰ خاں ، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف ، ان چاروں فوجی آمروں کا مجید نظامی سے ٹاکرا ضرور ہوا۔ یہ واقعات ہماری ناقابل رشک سیاسی زندگی کے قابل رشک باب ہیں۔ ہم ان پر فخر کر سکتے ہیں۔ ان کی پہلی مڈبھیڑ جنرل ایوب خاں سے ہوئی ۔ جنرل ایوب خاں اخبار نویسوں کو اپنے گریبان میں منہ ڈال کر جھانکنے کی ہدایت فرما رہے تھے۔ اسی مجلس میں نوجوان مجید نظامی اٹھے اور بولے ۔’’ میں جب بھی اپنے گریبان میں جھانکتا ہوں تو میرا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے ‘‘۔ پھر جنرل یحییٰ خاں کو حضرت مجید نظامی یہ بتانا نہ بھولے کہ مارشل لاء نہ ہی کوئی لاء ہوتا ہے اور نہ ہی مارشل لاء کورٹ کوئی کورٹ‘‘۔ اس کے بعد نوے رو ز الیکشن کروانے کا وعدہ دے کر آنے والے جنرل ضیاء الحق سے معاملہ آتا ہے ۔جب جنرل ضیاء الحق کا اقتدار لمباہوگیا اور الیکشن کا کوئی منہ سر نظرنہ آیا تو وہ انہیں یہ کہے بغیر نہ رہ سکے۔ ’’ساڈی جان کدوں چھڈو گے ‘‘۔ ’میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں ہوں ‘ کے دعویدار جنرل پرویز مشرف کو ان کے منہ پر ان کے ایک امریکی فون پر ڈھیر ہونے والی بہادری کی قلعی کھول کر رکھ دی ۔ یہ سب باتیں پرانی ضرور ہو چکی ہیں لیکن اتنی بھی پرانی نہیں کہ گھورے پر پھینک دی جائیں۔ جمہوریت کے مسئلے پر ان کی سوچ کسی ابہام کا شکار نہیں تھی ۔ معروف صحافی امتیاز عالم ’نوائے وقت ‘ کی سوچ کو رجعت پسند اور زوال پذیر قرار دیتے ہیں۔ لیکن حضرت نظامی کے مداح اور ’نوائے وقت ‘ سے ذہنی طور پر وابستہ لوگ اسی رجعت پسند اور زوال پذیر فکر کو پاکستان کی پہچان سمجھتے ہیں۔ وہ اسے ہی نظریہ پاکستان قرار دیتے ہیں۔ حضرت نظامی نے بھارتی سیاستدانوں کی پالیسیوں سے اپنا شدید اختلاف چھپانے کی کبھی کوشش نہیں کی ۔ انہیں ایک مرتبہ ضیاء الحق نے اپنے انڈیا کے دورے پر ہمراہ لیجانے کی خواہش ظاہر کی ۔ لیکن یہ مرد جری انڈیا صرف ٹینک پر سوار ہوکر جانے پر رضامند تھا۔ پاکستان کے ایٹمی دھماکے کے سلسلے میں انہوں نے میاں نواز شریف کو یہی مشورہ دیا تھاکہ اگر آپ نے دھماکہ نہ کیا تو عوام آپ کا دھماکہ ضرور کر دینگے ۔ ہمارا انڈیا سے کشمیراور دریائوں کے پانی کا مسئلہ الجھا ہوا ہے ۔ کالا باغ ڈیم کے مسئلے پر کالا باغ ڈیم کے مخالفین کی ہندوستانی مالی سرپرستی اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ پھر ہندوستانی قیادت کا بنگلہ دیش کے قیام کا کھلم کھلا اقرار ہماری آنکھیں کھولنے کو کافی ہے ۔ سوئے ہوئوں کا جگانا ممکن ہے۔ جاگتے ہوئوں کو بھلا کون جگا سکتا ہے ۔ بھارت بڑا ملک ہونے کے باوجود چھوٹی سوچ رکھتا ہے ۔ یہ ایک اچھا پڑوسی بھی نہیں۔ لیکن مسئلہ یہ بھی ہے کہ ملکی سطح پر پڑوسی بدلے نہیں جا سکتے ۔ حضرت مجید نظامی انڈیا کو اپنا دشمن نمبر ایک قرار دیتے تھے ۔ لہذا وہ اس سے کسی قسم کے سیاسی ، سماجی ، ثقافتی روابط بھی رکھنا نہیں چاہتے تھے تاوقتیکہ وہ کشمیر آزاد نہیں کر دیتا۔ اس سلسلہ میں وہ کسی درمیانی راستہ کے قائل بھی نہیں تھے ۔ لیکن اپنے نظریات پر اتنی سختی سے کاربند اس شخص کے بچپن کا ایک واقعہ بڑادلچسپ ہے ۔
 حضرت مجید نظامی کا آبائی گھر سانگلہ ہل میں ہندوئوں کے ایک محلے میں تھا۔ ان دنوں ان کے گھر کھانے پکانے کیلئے بغیر ہڈی کے گوشت آیا کرتا تاکہ ہڈی باہر گلی کوچے میں پھینکنے کی نوبت نہ آئے ۔ ہڈی والا گوشت گھر نہ لانے کی وجہ ہندئوں کے رسم و رواج کا احترام تھایا ہندو محلے میں ایک اکیلے مسلمان گھرانے کی بے بسی ، بہر حال یہ جو کچھ بھی تھا قیام پاکستان سے پہلے بغیر ہڈی کے گوشت لانے والے خاندان کے حضرت مجید نظامی عمر بھر پاکستان کے بے لگام حکمرانوں کی حکمرانی کے لذیذ کباب میں ہڈی بنے رہے ۔ 

ای پیپر دی نیشن