آج مجید نظامی کو ہم سے بچھڑے ہوئے سات برس ہوگئے ہیں۔مجیدنظامی پاکستانی صحافت کا ایک ایسانام ہے جو تاریخ میںہمیشہ جگمگاتارہے گا۔نصف صدی سے زائد صحافتی سطح پر اِن کی خدمات ہر پاکستانی کے لیے ایک کھلی کتاب ہے جس کی روشنی سے ہر صحافی اپنی منزلوں کی سمت دُرست کرسکتاہے ۔اُن کی شخصیت کو تین الفاظ میںبیان کیاجائے تو وہ محافظ پاکستان ،عاشق رسول اور آزادکشمیر کی جدوجہد آزادی کے قلم کار سپوت تھے۔اُن کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اپنے مشن کے لیے وقف تھا،نہ دولت سے پیار اور نہ کُرسی کی طاقت کا شوق تھا۔ اپنی حیات کو بس اِسلام،نظریہ پاکستان اورجمہوریت کے لیے وقف کردیا ۔کام کام اور بس کام کی لگن کے ساتھ وہ نظریہ پاکستان کی سرحدوں کے امین رہے ۔مجید نظامی نے ایک جگہ یوںکہاکہ جب تک میںزندہ ہوںاِسلام ،نظریہ پاکستان اور جمہوریت کے لیے کوشاں رہوں گا۔وہ حقیقی جمہوریت اِس دیس میں دیکھنے کے خواب کے ساتھ زندہ رہے مگر جب ہر جمہوریت میںڈکٹیٹرشپ کی بُو اُن کو نظر آجاتی تو وہ سچ کا علم بلند کرتے اور اپنے اخبار کواستعمال کرتے ۔جابر حکمران کے سامنے حق کا کلمہ کہنے کو وہ جہاد سمجھتے تھے اور اِس نظریے پر مرتے دم تک قائم رہے۔جابر حکمرانوں کے ساتھ اُن کے مکالمے تاریخ کا حصہ بن گئے ۔نہ وہ فوجی حکمرانوں سے کبھی ڈرے اور نہ سول حکمرانوں سے ۔جو بُرا لگا ،دل کی بات زبان پر کہنے کا ہنر آتاتھا۔ کئی بار مزاحیہ انداز میں تاریخی جملے کہہ کر وہ حکمرانوںکو بہت کچھ سُنا دیتے تھے ۔تاریخی حقائق ،قیام پاکستان کی تحریک سے لے کر پاکستان کے قیام تک کس کا کیا کردار تھا اور بعد میںکس حکمران نے اِس مُلک کے ساتھ کیا اچھا کیا اور کیا بُرا کیا ،وہ سب کچھ اُن کی زندگی کی یاداشتوںمیں محفوظ تھا ۔ اپنی کتاب ’’جب تک میں زندہ ہوں‘‘ میں پاکستان کی تاریخ کے تلخ حقائق اور اپنی نظریاتی صحافتی جنگ کے بارے میں سچ لکھتے ہوئے اِس قومی فرض کونہایت خوش اسلوبی سے سِر اِنجام دیا اورتاریخی ورثہ کو نہایت ہی خوبصورت انداز میں کتاب میں بیان کیا ۔ اِسی کتاب سے چند مجید نظامی کے حکمرانوںسے ملاقات اور گفتگو کے واقعات بیان کررہاہوں۔کراچی میںصدرا یوب خان کے ساتھ پہلی ہی میٹنگ میںمدیران جرائد کو اِس طرح بٹھایا گیاجیسے کوئی کلاس روم ہوفیلڈ مارشل کا اندازگفتگوبھی کچھ ایسا ہی تھاآتے ہی کہنے لگے۔آپ حضرات جو کچھ کررہے ہیںاِس پر آپ کو شرم آنی چاہیے آپ اپنے گریبان میں مُنہ ڈال کردیکھیں۔مجیدنظامی سب سے کم عُمر مدیر تھے اپنے بڑے بھائی حمید نظامی کی اچانک وفات کے بعداخبار کی ذمہ داریاںایک مشن سمجھ کر سنبھالی تھیںکہ جو حق و صداقت وہمیشہ سچ لکھنے کی پالیسی کی بنیاد میرے بھائی نے اخبار کے آغازسے مرتے دم تک رکھی اُس کو لے کرچلوںگا ۔مجیدنظامی نے فوراََ کھڑے ہوکر کہااگرجان کی امان پائوں تو کچھ عرض کروں؟ ایوب خان نے مسکرا کرکہاجان کی امان ہے آپ بتائیے ؟مجید نظامی نے کہا۔آپ مجھے بتائیے کہ مجھے کس بات پر شرم آنی چاہیے؟میںگریبان میںمُنہ ڈالتاہوں تو میراسَر فخرسے بلندہوجاتاہے!۔ایوب خان نے جواب دیا میرااشارہ آپ کی طرف نہیںتھا آپ بیٹھ جائیں۔اِس پرمجید نظامی نے کہاپھر آپ کااشارہ جس کی طرف تھااِس کا نام لیجیے سب کوگریبان میںجھانکنے کا مت کہیے۔1965ء کے الیکشن کے دوران فیلڈ مارشل ایوب خان کے مقابلے میں مادر ملت فاطمہ جناح کی حمایت میں مسقتل مزاجی کے ساتھ ڈٹے جانے والے مجید نظامی نے اپنے قائد سے وفاکے رشتے کو برقرار رکھا۔وہ اگر حکومت کوئی اچھے کام کرتی تو تعریف بھی کرتے تھے ،مخالفت برائے مخالفت کی پالیسی کاکبھی حصہ نہیںبنے۔سچائی کی کسوٹی پر ہی اِنصاف پسند ی ہی ہمیشہ اِن کا کسی بھی حکومت کی کارکردگی کا ناپنے کا پیمانہ رہا۔یہی وجہ ہے کہ ایوب خان دور میںدُوسری مرتبہ انڈیاکے ساتھ جنگ میں اُنھوںنے کُھل کر حکومت کے موقف کی حمایت کی۔جنرل ضیاالحق سے وہ اِنٹرویو لینے گئے تو جنرل صاحب نے دوران گفتگوکہاآپ نے کوئی سوال نہیںکیا۔مجیدنظامی نے بڑی سادگی سے پوچھ ا’’ساڈی جان کدوچھڈوگے‘‘میاں فیملی اورمجیدنظامی خاندان کے درمیان خلوص ،اپنائیت و احترام کا رشتہ اُس دور سے ہواجب ذوالفقار علی بھٹوشہید نے تمام صنعتوںکونیشنلائزکیا تھا اور یہ تعلقات ایک احترام اور محبت کے رشتے کے ساتھ آج بھی دونوں گھرانوں میںموجود ہیں۔نواز شریف اور شہباز شریف اُن کو اپنا بزرگ سمجھتے رہے اوراَب یہ خلوص و اپنائیت کا رشتہ مجیدنظامی صاحب کی بیٹی سے برقرارہے ۔میاںنوازشریف کے سابقہ دورمیںجب میاںرفیع تارڈ کو اُنھوںنے صدر پاکستان بنایا تھا۔اُس سے پہلے میاں نوازشریف اپنے والد مرحوم میاں صاحب کے ساتھ مجید نظامی کے پاس آئے اور آفر کی کہ آپ صدرپاکستان بن جائیںتومجیدنظامی نے کہا:شکریہ یہ میراکام نہیں ہے اور شاید اِ س طرح آپ مجھے ’’کرسی ادارت ‘‘سے فارغ کرکے’’کرسی صدارت ‘‘ پر بٹھانا چاہتے ہیں لیکن میں اپنا کام کرنا چاہتاہوںاور جس کرُسی پربیٹھا ہوں اپنے لیے اسے ہی سب سے زیادہ قابل عزت اور قابل احترام سمجھتاہوں‘‘۔ ایک دبنگ ودلیر ایڈیٹر تھے جو سول وفوجی حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق کہتے رہے،دھیمے انداز میںگفتگو کا اندازِبیان میںوہ مقصدیت کی بات کہنے کا ہنر جانتے تھے۔اُصولوں کے اردگرد ایک مشن کے ساتھ نوائے وقت کی پہچان بنائی ۔ وہ ایک چلتا پھرتا پاکستان تھے ۔قائد اعظم ؒکے ایک عملی سپاہی تھے ۔اُن کے کردار ،گفتگو اور ہر عمل سے قائد اعظم و اِقبال ؒ کے اقوال کا عملی نمونہ جھلکتاتھا ۔اگرکوئی شخصیت دُنیا میںرول ماڈل کے طور پر پاکستانی کی پیش کرنی ہو تو ہمارے پاس مجید نظامی کی زندگی ہے۔کاش ہمارے حکمران اُن کے تجربات وبصیرت سے فائد ہ اُٹھاتے تو آج کاپاکستان بہت بہترہوتا۔نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے پلیٹ فارم سے نظریہ پاکستان کے تشخص کے لیے کام کرتے رہے۔نظریاتی سکولوں کے ذریعے اُنھوںنے نئی نسل کی بھر پور سرپرستی کی ۔ وہ چاہتے تھے کہ نوجوان نسل کو مکمل طورپرنظریہ پاکستان سے آگہی ہو اور ہر جوان کو معلوم ہونا ضروری ہے کہ پاکستان کتنی مشکلوںسے کس مقصد کے لیے بنا تھا۔وہ سکولز ،کالجز کورس کے سلیبس میںنظریہ پاکستان کی تعلیم کے سلیبس کو شامل کرنے کی ضرورت پر زور دیتے تھے۔ ۔محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اِن کو محافظ نظریہ پاکستان کا خطاب دیا۔نشان پاکستان ،ستارہ پاکستان،ستارہ امتیاز اور ستارہ قائد اعظم سے حکومت نے نوازکر اِن کی صحافتی خدمات کومانا۔ آل پاکستان نیوزپیپر سوسائٹی نے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈدیا۔ تحریک پاکستان میں بطور طالب علم خدمات پر اُس وقت اُنھیںمجاہد پاکستان کا خطاب دیاگیا۔اِسلامیہ کالج گرائونڈ میںہونے والی تقریب میںلیاقت علی خان نے اِنھیںاعزازی شمشیر بھی عطاکی۔محترمہ فاطمہ جناع کے سپاہی کے طور پر اُن کی خدمات قوم کے لیے قابل فخرہیں۔تحریک پاکستان سے لے کر تحریک ختم نبوت،تحریک نظام مصطفی ہو یا تحریک تحفظ ناموس رسالت ،ہرموقع پر اِن کا کردار مثالی رہا۔نظریہ پاکستان ،مسئلہ آزاد کشمیر،محصورین بنگلہ دیش کی اخلاقی مدد،محسن پاکستان کی طویل اسیری کے دوران نوائے وقت کا کردار اُن کی پالیسیوں کے مرحون منت تھا۔ کوئی قومی ایشوہو ہر موقعہ پر وہ سُرخروہوئے ۔،تحریک ختم نبوت ہویا تحریک نظام مصطفیٰ اُن کا کردار ہر لمحے لبیک یا رسول اللہ کہتے ہوئے دکھائی دیا ۔پاکستان کواٹیمی طاقت کرنے کے لیے اُس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کویوں مخاطب ہوئے ۔’’آپ نے دھماکہ نہ کیا تو قوم آپ کا دھماکہ کر دے ‘‘۔ اور پھر دھماکہ ہوگیا۔بہت سارے لوگوں کا خیال تھا کہ ہوسکتاہے اُن کے جانے کے بعد نوائے وقت کی نظریاتی پالیسی و اُصولوںمیں لچک آجائے گی مگر اُنھوں نے اپنی بیٹی رمیزہ نظامی کی پرورش ہی اِس انداز میںکی کہ آج وہ مضبوطی سے اُن کے مشن کا علم تھامے ہوئے ،منزل کی طرف گامزن ہیں۔
یہ کردار تھا محافظ پاکستان اور امام صحافت کا ۔اُن کی ذات پاکستان کی سیاسی وصحافتی تاریخ کا وہ قابل فخرباب ہے جس پر پوری قوم اُن کی پچاس سالہ صحافتی زندگی پر اُن کو سلام پیش کرتی ہے ۔صحافت عبادت ہے اگر اُصولوں وسچائی کے راستوں پر ہواورمجیدنظامی ساری زندگی ہرلمحے اِس عبادت میںہی رہے ہیں ۔اورمجیدنظامی نے یہ عبادت عُمر بھر زندگی کے ہر لمحہ میںکرکے اپنے آپ کو سُرخرو کیا ۔اور رب کو یہ عبادت اتنی پسند آئی کہ لیلتہ القدر کی بابرکت رات (25جولائی 2014ئ) کواپنے پاس بُلا لیا۔دُعاہے اللہ پاک اُن کو جنت میں اعلی ٰ مقام پرفائز کرے آمین
اِمام صحافت محترم مجیدنظامی کی یادیں
Jul 26, 2021