آبروئے صحافت کی سپورٹس میں غیر معمولی دلچسپی 

حافظ محمد عمران 
 ان کی خبر لیں اور ذرا اچھے طریقے سے۔ کیا شعیب اختر میرٹ پر پورا اترتا ہے‘‘ میں نے کہا ’’جی سر بالکل‘‘ ’’توپھر اسے سب سے پہلے جنوبی افریقہ ہونا چاہئے تھا۔ فاسٹ بائولر دہشت گرد ہوتے ہیں۔ انہیں برداشت کرنا پڑتا ہے اور کام لینے کا طریقہ بھی آنا ضروری ہے۔ کیا نام ہے وہ پاکستان کے پہلے فاسٹ بائولر فضل محمود اور خان محمد جب میں ولایت میں ہوتا تھا یہ وہاں آتے تھے۔ مجھے ان کے مشاغل کا بھی علم ہے۔‘‘ یہ الفاظ مرحوم ڈاکٹر مجید نظامی کے ہیں۔ عام تاثر یہی ہے کہ کھیلوں کو زیادہ پسند نہیں کرتے تھے‘ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے کہ وہ  ہمیشہ پاکستان کی کھیلوں میںزیادہ دلچسپی نہیں لیتے تھے۔‘‘ ادارتی نوٹ لکھے جاتے رہے۔ مجھے اپنے کالم کیلئے ہدایات ملتی رہیں کہ آپ اس موضوع پر لکھیں۔ ذکاء  اشرف جب چیئرمین کرکٹ بورڈ بنے تو فرمایا ان کا کیا تعلق ہے کرکٹ سے‘ میں نے کہا کہ ان کا تعلق صدر آصف علی زرداری ہے۔ نجم سیٹھی کے چیئرمین کرکٹ بورڈ بننے سے مجھ سے سوال کیا گیا بھئی یہ یہاں کیسے آگئے۔ جواب دیا سر میاں نوازشریف کی خواہش پر وہی ان کے پیچھے کھڑے ہیں۔ باب وولمر پر ایک کالم لکھا گیا تو نظامی صاحب نے پاکستانی ٹیم کے سابق کوچ کی تصویر شائع کرنے کی بھی ہدایت کی گئی۔  اسی طرح منیر ڈار  مرحوم کی یاد میں لکھا گیا کالم بھی مجید نظامی صاحب نے تصویر کے ساتھ شائع  کیا۔ ’’بھئی یہ جو پاکستان کا لڑکا بھارت کے لڑکے کے ساتھ جوڑی بنا کر کھیلتا ہے۔ کیا یہ کسی اور کے ساتھ نہیں کھیل سکتا۔ میں نے کہا سر اعصام الحق سے اس ضمن میں پوچھا گیا ہے۔ ان کے مطابق  کچھ پوائنٹس کا مسئلہ ہوتا ہے اور کچھ کھلاڑیوں کی اپنی مرضی‘ کہنے لگے بھئی پھر یہ کسی اور کے ساتھ جوڑی بنا لے تو زیادہ بہتر ہے۔‘‘میرا کالم ان کی منظوری کے بعد شائع ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ نظامی صاحب گھر سے کالم بھیجنا بھول گئے۔ اگلے روز کالم  ڈاک کے ساتھ دفتر آیا تو انہوں نے لکھا کہ معذرت۔ یہ کالم گھر رہ گیا تھا۔ آج  کرکٹ کے کپتان نے ترلے لئے ہیں۔ اس پر کالم لکھ دیں۔ وہ کالم شعیب ملک پر تھا۔ اس وقت وہ کپتان تھے اور انہوں نے بھارت کے ساتھ کرکٹ  پر بڑی خواہش کا اظہار کیا تھا۔
انڈین پریمیئر لیگ میں کھلاڑیوں کی نیلامی کا مرحلہ شروع ہوا تو جناب نظامی صاحب نے فرمایا کہ ’’یہ بھارت میں پاکستانی کھلاڑیوں کی ’’بولی‘‘ لگ رہی ہے‘ ان کی خبر تو لیں‘ انسانوں کی خریدوفروخت کا یہ کیا طریقہ ہے۔‘‘ ایک مرتبہ فرمایا کہ’’ بھئی آپ کے چیئرمین مجھ سے ملنے آرہے ہیں۔ (چیئرمین کرکٹ بورڈ) ضرور ان کو آپ سے کوئی شکایت ہوگی۔ کیا خیال ہے آپ کو   بھی بلا لوں۔‘‘ میں نے کہا سر جیسے آپ کا حکم‘ ’’فرمانے لگے بھئی پھر آپ بھی آجانا۔‘‘ واقعی وہ چیئرمین شکایت لیکر حاضر ہوئے تھے۔نظامی صاحب کے کمرے میں اس چیئرمین سے ملاقات ہوئی۔ میں ساتھی رپورٹرز چودھری اشرف اور اعجاز شیخ کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا تو کہنے لگے ’’لو جی آگئے ہیں آپ کے دوست۔ مجھے پوچھا بھئی آپ نے خود بھی کبھی کرکٹ کھیلی ہے۔‘‘ جواب دیا ہاں جی سر قذافی سٹیڈیم کے ساتھ والی گرائونڈ میں اور کرکٹ بورڈ کے کئی چیئرمینوںکے مقابلے میں تو بہت زیادہ کھیلی ہے۔’’ نظامی صاحب کہنے لگے بھئی آپ تو خود ’’بیٹ‘‘  کے سائز کے ہیں۔‘‘ کرکٹ ٹیم تین چار مسلسل میچ ہارنے کے بعد کامیابی حاصل کرتی تو لطیف مسکراہٹ کے ساتھ یہ جملہ بھی سننے کو ملتا۔’’ آپ کی ٹیم واقعی جیت گئی ہے۔مبارک ہو۔‘‘ مجھے انہو ںنے  ایک مرتبہ بٹھایا  پالیسی  پربریفنگ دی اور اپنے روایتی نرم لہجے میں سمجھایا کہ ’’کھیل کے میدان میں بھی ادارے کی پالیسی کا  خیال بہرحال رکھنا ضروری ہے۔‘‘ کرکٹ بورڈ انہیں میچ دیکھنے  کیلئے وی آئی پی کارڈ یا کوئی دعوت نامہ بھیجتا تو وہ بلا کر میرے حوالے کر دیتے یا بھجوا دیتے۔ اس پیغام کے ساتھ کہ ’’آپ جائیں‘   میرا یہاں کیا کام۔‘‘ ایک مرتبہ ویسٹ انڈیز اور پاکستان کے درمیان ٹیسٹ سیریز جاری تھی۔ ٹیسٹ میچ کے تیسرے روز میں نے اپنا تبصرہ  نہ لکھا کہ  میچ میں جان نہیں اس پر مجھے حکم ملا کہ جب تک میچ جاری ہے’’ آپ کس طرح یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ تبصرہ نہیں لکھنا۔ ’’جب پہلے دن سے لکھا ہے تو ٹیسٹ میچ کے ختم ہونے تک لکھیں۔

ای پیپر دی نیشن