چوبیس سو چوبیس کروڑ پر حاوی!!!!

پاکستان کے سیاستدان مل کر سپریم کورٹ آف پاکستان کو بھی متنازعہ بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ چونکہ ان کی اکثریت انصاف پسند نہیں نہ ہی عہدے سے انصاف کرتے ہیں، نہ ملک سے انصاف کرتے ہیں، نہ حلف سے انصاف کرتے ہیں، نہ اپنے ووٹرز سے انصاف کرتے ہیں نہ ہی انصاف دیکھنا چاہتے ہیں نہ انصاف کا نظام قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں عدالتیں اچھی نہیں لگتیں۔ یہ رویہ کسی ایک سیاسی جماعت تک محدود نہیں ہے بلکہ اس میں تمام سیاسی جماعتیں شامل ہیں۔ سب یہی چاہتے ہیں کہ انصاف ایسا ہو جس سے انہیں مالی و سیاسی نقصان نہ پہنچے، انصاف ایسا ہو جو سیاسی مستقبل کو محفوظ بنائے۔ بس اسی سوچ کے ساتھ عدالت جاتے ہیں۔ کوئی ایسی سیاسی جماعت نہیں جو عدلیہ کے فیصلوں سے خوش ہو، کوئی ایسی جماعت نہیں جو عدالتی نظام کو بہتر بنانے میں سنجیدہ ہو، کوئی ایسی سیاسی جماعت نہیں جو یہ خواہش رکھتی ہو کہ نظام عدل ایسا ہو کہ جہاں فیصلے چہرے دیکھ کر نہ کیے جائیں۔ سب کی یہی خواہش ہے کہ فیصلہ پوچھ کر کیا جائے۔ ہم ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت اور روپے کی گرتی ہوئی قدر کو رو رہے ہیں، ہم بیرونی سرمایہ کاروں کی طرف دیکھ رہے ہیں ایسے حالات میں کون عقل کا اندھا سرمایہ کاری کرنے آئے گا۔ کیا ملک کے حالات ایسے ہیں کہ کاروبار پھلے پھولے، استحکام ہو کاروباری سرگرمیاں عروج پر ہوں، توانائی کے مسائل ہیں۔ غربت میں اضافہ ہو رہا ہے آنے والے دن اور بھی مشکل ہو سکتے ہیں۔ یہ لگ بھگ چوبیس سو لوگوں نے لگ بھگ چوبیس کروڑ لوگوں کی زندگی کو مشکل بنا رکھا ہے۔ یہ چوبیس سو وسائل پر قابض ہیں، ان کے لیے آسائشیں ہیں اور تمام مشکلات کا سامنا چوبیس کروڑ نے کرنا ہے۔ اندھیر نگری ہے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ان کے چہروں پر مسکراہٹیں ختم نہیں ہوتیں اور عام آدمی کے آنسو خشک نہیں ہوتے۔ کہیں کوئی راستہ نظر نہیں آتا کہ ان سے بچ کر نکل جائیں۔ کہیں کوئی امید نظر نہیں آتی کہ یہ چوبیس سو عوام کے دکھوں کو کم کرنے کے لیے کوشش کریں۔ ان کے اپنے جھگڑے ختم نہیں ہوتے۔ یہ سب نعرے لگاتے ہیں کہ طاقت کا سر چشمہ عوام، عام آدمی کی سیاست کا درس دیتے ہیں، عام آدمی کے نام پر باہر نکلتے ہیں لیکن سب سے زیادہ خون بھی عام آدمی کا پیتے ہیں۔ یہ کبھی عوام کے حقیقی نمائندوں کو اوپر نہیں آنے دیتے یہ اپنے من پسند اور سر جھکائے کھڑے رہنے کی عادت اپنانے والوں کو اوپر لاتے ہیں۔ طاقت کا سرچشمہ عوام لیکن صرف حصولِ اقتدار کے لیے، وسائل پر قابض ہونے کے لیے، اقتدار ملنے کے بعد اس عوام کے حقوق غصب کرنے باہر سے کوئی نہیں آتا یہی لوگ حقوق پر ڈاکہ ڈالتے ہیں۔ یہ لوگوں کو تقسیم رکھتے ہیں، متحد نہیں ہونے دیتے، یہ لوگوں میں انتشار پھیلائے رکھنا چاہتے ہیں، یہ لوگوں کو امن و سکون سے نہیں رہنے دینا چاہتے ان سب کو اپنی اپنی فکر پڑی رہتی ہے کہ اگر لوگ متحد ہو گئے، انتشار سے بچ گئے تو سیاست ختم ہو جائے گی۔ جب کبھی آپ ان چوبیس سو لوگوں کا یاد کرتے ہیں تو شاعر عوام، شاعر انقلاب حبیب جالب مرحوم بہت یاد آتے ہیں۔ حبیب جالب نے لکھا 
خطرہ ہے زرداروں کو
گرتی ہوئی دیواروں کو
صدیوں کے بیماروں کو
خطرے میں اسلام نہیں
ساری زمیں کو گھیرے ہوئے ہیں آخر چند گھرانے کیوں
نام نبی کا لینے والے الفت سے بیگانے کیوں
خطرہ ہے خونخواروں کو
رنگ برنگی کاروں کو
امریکہ کے پیاروں کو
خطرے میں اسلام نہیں
آج ہمارے نعروں سے لرزہ ہے بپا ایوانوں میں
بک نہ سکیں گے حسرت و ارماں اونچی سجی دکانوں میں
خطرہ ہے بٹ ماروں کو
مغرب کے بازاروں کو
چوروں کو مکاروں کو
خطرے میں اسلام نہیں
امن کا پرچم لے کر اٹھو ہر انساں سے پیار کرو
اپنا تو منشور ہے جالب سارے جہاں سے پیار کرو
خطرہ ہے درباروں کو
شاہوں کے غم خواروں کو
نوابوں غداروں کو
خطرے میں اسلام نہیں
خطرے میں رہتے ہیں تو یہ چوبیس سو اور ہر وقت خطرے کو محسوس کرتے رہتے ہیں۔ یہ خطرات سے نکلنے کے بجائے معصوم لوگوں کو الجھانے کا کاروبار کرتے ہیں۔ آج بھی یہی حالات ہیں۔ کسی کو بھی سنیں سب وہی بات کر رہے ہیں جس سے انہیں سیاسی فائدہ ملنا ہے۔
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کہتے ہیں کہ "حکومتی اتحاد نے فل کورٹ کا مطالبہ کیا تھا، جب ایک ادارے سے متعلق فیصلہ ہو رہا ہے تو عدلیہ کے بھی پورے ادارے کو بیٹھنا چاہیے، پیپلزپارٹی اور پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتوں نے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کر دیا ہے۔" یہہ وہ رویے ہیں جن کی وجہ سے ملک میں انصاف نہیں ملتا اور حالات ٹھیک نہیں ہوتے۔مولانا فضل الرحمان کہتے ہیں کہ "عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کرتے ہیں۔ حکومت چاہتی ہے کوئی ادارہ مداخلت نہ کرے۔ عدالت میں ہمارے وکلا نے بینچ کو آئین کے مطابق مشورہ دیا، بدقسمتی سے عدلیہ نے غیرجانبداری سے غور کے بجائے اسے مسترد کر دیا"۔ ابھی زیادہ وقت نہیں گذرا مولانا کسی پر زمین تنگ کر رہے تھے، کسی کو چٹکی قرار دے رہے تھے اور آج مولانا کی اپنی زمین تنگ ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ یہ بات طے ہے سیاسی لوگوں نے ٹھیک نہ ہونے کا عہد کر رکھا ہے۔

ای پیپر دی نیشن