مجید نظامی کا آٹھواں یومِ وفات اور ملک کی پیچیدہ سیاسی صورتحال

معمارِ نوائے وقت، ملک کی نظریاتی سرحدوں کے پاسبان اور امام صحافت مجید نظامی کا آج 26 جولائی کوآٹھواں یومِ وفات اس فضا میں منایا جا رہا ہے کہ ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی‘ انصاف کی عملداری اور جمہوریت کی پاسداری کے معاملہ میں صورتحال انتہائی گھمبیر ہو چکی ہے۔ آج مقتدر طبقات کی جانب سے ہی آئین و قانون کی حکمرانی کو بازیچۂ اطفال بنایا جا رہا ہے اور انصاف کے اعلیٰ ایوانوں میں پارٹی سربراہ کے اختیارات کو پارلیمانی سربراہ کے تابع کرنے کے راستے ڈھونڈے جا رہے ہیں جس کیلئے آئین کی دفعہ 63۔اے کی تشریح کے بھی نئے جواز نکالے جاتے نظر آرہے ہیں۔ آج مجید نظامی حیات ہوتے تو آئین و قانون کی حکمرانی کی درگت بنتے دیکھ کر بہت دل گرفتہ ہوتے کیونکہ انہوں نے اپنے پورے صحافتی کیریئر کے دوران آئین و قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کے فروغ و استحکام کی وکالت کی۔ قدرت کاملہ نے اس دارِ فانی سے مجید نظامی کی رخصتی کیلئے رحمتوں، فضیلتوں اور برکتوں والے مہینے رمضان المبارک کی ستائیسویں شب (لیلۃ القدر) کومنتخب کیا  جس کی فضیلت ہمارے لئے اس لئے بھی زیادہ ہے کہ 27ویں رمضان المبارک کو ہی اس ملک خداداد پاکستان کا قیام عمل میں آیا تھا۔ اسی سعد گھڑی مجید نظامی کی رحلت پاکستان کے ساتھ انکی اٹوٹ محبت کا بھی بین ثبوت ہے۔ چنانچہ ہر سال 26 جولائی کے علاوہ 27ویں رمضان المبارک کو بھی انکی برسی کا عقیدت و احترام کے ساتھ اہتمام کیا جاتا ہے اور انکی روح کو ایصالِ ثواب کے ساتھ ساتھ ملک کی ترقی‘ خوشحالی اور سلامتی کی بھی خصوصی دعائیں مانگی جاتی ہیں۔آج تحریک پاکستان کے کارکن ،مرحوم مجید نظامی کے عزیز و اقرباء اور نوائے وقت کے کارکنان انکی قبر پر حاضری دیکر ان کیلئے بلندی ِدرجات کی دعائیں مانگیں گے۔ نوائے وقت کی مسجد میں انکی روح کو ایصال ثواب کیلئے  قرآن خوانی کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔ 
مجید نظامی ملک کی بقاء و سلامتی اور ترقی و خوشحالی کیلئے دردِدل رکھنے والی وہ شخصیت تھے جو وطن عزیز کیخلاف بھارتی سازشوں اور چالبازیوں کا مکمل ادراک اور آگاہی رکھتے تھے اور ایک ماہر نباض کی طرح ملک کو درپیش اصل عوارض کا کھوج لگا کر ان کا شافی علاج تجویز کیا کرتے تھے۔ بطور خاص بھارتی چالبازیوں سے خبردار رہنے اور اپنے گھوڑے تیار رکھنے کی تلقین کیا کرتے تھے جو اس امر کے قائل تھے کہ بھارت ہمارے لئے ایک موذی سانپ ہے جسے دودھ پلا کر بھی ہم اسکے زہریلے ڈنک سے نہیں بچ سکتے اس لئے سانپ کا سر کچلنا ہی ملک کی سالمیت کے تحفظ کیلئے ہماری بہترین حکمت عملی ہونی چاہیے۔  وہ اسلامی دنیا کے پہلے ایٹمی ملک پاکستان کے ایٹمی پروگرام کیخلاف امریکہ‘ بھارت اور اسرائیل کے گٹھ جوڑ کو شیطانی اتحاد ثلاثہ سے تعبیر کیا کرتے تھے اور اسی تناظر میں کہا کرتے تھے کہ ہم نے ایٹم بم شوکیس میں سجانے کیلئے تیار نہیں کیا۔وہ ہندو بنیا سے ملک و ملت کیلئے کبھی خیر کی توقع نہیں رکھتے تھے اور حکمرانوں کی جانب سے بھارت کیلئے کسی نرم گوشے کو بھانپ کر انکی خوب گوشمالی کیا کرتے تھے۔ بھارت کی ہندو انتہا پسندمودی سرکار اپنی پاکستان مخالف کارستانیوں سے بھارت کے حوالے سے مرحوم مجید نظامی کے جذبات و خدشات پر مہر تصدیق ہی ثبت کر رہی ہے جو پاکستان کے خیرسگالی کے ہر پیغام کا اپنے جارحانہ عزائم کے ذریعے جواب دیتی ہے۔ اگر متعصب ہندوئوں کے نمائندے نریندر مودی مجید نظامی کی حیات میں برسراقتدار آتے تو وہ ان کیلئے ننگی تلوار بنے نظر آتے۔ مودی نے اپنے سابقہ دور اقتدار میں پاکستان کے ساتھ اعلانیہ دشمنی پر مبنی جو پالیسیاں اپنائے رکھیں اور سرحدی کشیدگی بڑھا کر عملاً جنگ کا ماحول طاری کئے رکھااور اب بھی وہ ہندوتوا پر مبنی اپنے توسیع پسندانہ عزائم کے تحت جس طرح آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر نظر بد گاڑے ہوئے ہیں اور مقبوضہ کشمیر میں مظالم کی انتہاکرتے ہوئے کشمیریوں کو 1085 روز سے محصور کیا ہوا ہے‘ مجید نظامی حیات ہوتے تو حکومت کو ہندو انتہا پسند مودی کا غرور توڑنے کی ٹھوس اور اٹل حکمت عملی طے کرنے کی تلقین کرتے۔سابق وزیراعظم عمران خان تو بھارتی خارجہ پالیسی کی ستائش کرتے کرتے اقتدار سے فارغ ہوئے جس کے بعد وہ آئین و قانون سے کھلواڑ کے راستے پر چل نکلے۔ اس صورتحال میں ملک میں جمہوریت کی عملداری کیلئے بھی خطرات پیدا ہوتے نظر آرہے ہیں جبکہ آج عنانِ اقتدار مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہبازشریف کے ہاتھ میں ہے اور انکی سربراہی میں قومی حکومت ملک کو درپیش اندرونی و بیرونی چیلنجز سے عہدہ برأ ہونے کی کوششوں میں عوام کیلئے غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے مسائل مزید گھمبیر بنا چکی ہے جبکہ پی ٹی آئی قیادت کی جارحانہ سیاست سے سسٹم کی بقاء کو نقصان پہنچنے کا احتمال سر اٹھا رہا ہے۔ ایسے واقعات مجید نظامی کی زندگی میں رونما ہوتے تو ان کیلئے بہت زیادہ دل گرفتگی کا باعث بنتے۔ 
مجید نظامی کا شمار بلاشبہ ذاتِ باری تعالیٰ کے محبوب بندوں اور نبی ٔ آخرالزمان محمدِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے عشاق میں ہوتا تھا‘ جنہوں نے اپنی زندگی کے ایک ایک لمحے کو ملک خداداد کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی نگہبانی اور بانیانِ پاکستان قائد و اقبال کی امنگوں‘ آدرشوں اور انکے زریں اصولوں کے مطابق یہاں جدید اسلامی جمہوری فلاحی معاشرے کی تشکیل کیلئے وقف کئے رکھا۔ انہوں نے اپنے نفع نقصان کی پرواہ کی نہ جرنیلی اور سول آمروں کی ترغیب و تخویف کو کبھی خاطر میں لائے۔ وہ اپنی ذات میں خوبیوں ہی خوبیوں اور صفات ہی صفات کا مجموعہ تھے جو برملا اس امر کا اظہار و اعلان کیا کرتے تھے کہ وہ پاکستان اور نظریہ پاکستان کیلئے جانبدار ہیں اور اس جانبداری کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں جانے دینگے۔ انکے سچے اور کھرے پاکستانی ہونے کا اس سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کا دشمن اول بھارت بھی انہیں اپنا دشمن اول گردانتا تھا جبکہ وہ نظریہ پاکستان اور ملک کی سالمیت کیخلاف کسی بھی فورم پر کوئی بات برداشت کرتے تھے نہ اس پر کبھی مفاہمت پر آمادہ ہوتے تھے۔ وہ اسی ناتے نوائے وقت گروپ کے ذریعے بھارت نواز حکمرانوں اور دوسرے حلقوں سے ٹکر مول لیتے اور انکی اصلاح و خبرگیری کا اہتمام کرتے رہے۔ انہوں نے ہمہ وقت کشمیر کاز کو سپورٹ کیا اور کالاباغ ڈیم کی وکالت کی جس کیلئے انہوں نے نوائے وقت کے پلیٹ فارم پر قومی ریفرنڈم کا بھی اہتمام کیا جس میں تحفظ و بقاء اور استحکام پاکستان کیلئے انکی دردمندی ہی جھلکتی نظر آتی تھی۔ وہ ملک کی نظریاتی اساس اور جغرافیائی و قومی سلامتی کے معاملہ میں کسی حکمران کے پائے استقلال میں لغزش پیدا ہوتی محسوس کرتے تو ببانگ دہل اسے للکارتے اور ہوش کے ناخن لینے کی تلقین کرتے۔ اس تناظر میں بھارتی ایٹمی دھماکوں کے بعد جوابی ایٹمی دھماکوں کیلئے اس وقت کے وزیراعظم میاں نوازشریف کو گومگو میں دیکھ کر مجید نظامی نے انہیں اپنے اس بے مثال فقرے کے ذریعے للکارا  تھاکہ میاں صاحب آپ دھماکہ کر دیں ورنہ قوم آپ کا دھماکہ کر دیگی‘ میں آپکا دھماکہ کردوں گا۔ بعینہ وہ آج زندہ ہوتے تو بھارت کے ساتھ تعلقات کے معاملہ میں حکومت کو جامع اور اٹل پالیسی طے کرنے کی تلقین کرتے۔مجید نظامی قومی پالیسیوں میں گومگو کے ہرگز قائل نہیں تھے اور ایسے معاملات میں حکومتوں کی بروقت خبرگیری کیا کرتے تھے۔  انہوں نے دل کے تین بائی پاس آپریشن کرانے کے باوجود جس جواں ہمتی اور بلند عزم کے ساتھ آبرومندی والی اپنی زندگی کے 86 برس گزارے جس میں انکی صحافت کے 72 اور ادارت کے 52 سال بھی شامل ہیں‘ وہ انہی کا خاصہ ہے۔ انہوں نے پیشہ صحافت میں جہاں اپنے برادر بزرگ حمید نظامی کے روشن اصولوں کی آبیاری کی وہیں بامقصد اور اصولی صحافت کے تحفظ و فروغ میں ثابت قدمی کی نئی مثالیں قائم کرکے امامِ صحافت اور آبروئے صحافت کا درجہ بھی حاصل کیا۔  انہوں نے اپنی عمر فانی کے آخری لمحے تک اپنی ذات اور نوائے وقت کے خاندان کے ساتھ کیا گیا عہد پوری ثابت قدمی کے ساتھ نبھایا اور پیشہ صحافت کو پیشۂ پیغمبری ثابت کرکے دکھایا۔ انکے برادر بزرگ حمید نظامی نے قائداعظم کے فرمان پر 23 مارچ 1940ء کو قرارداد پاکستان کی منظوری کے ساتھ ہی متعصب ہندو پریس کا مقابلہ کرنے کیلئے پندرہ روزہ ’’نوائے وقت‘‘ کی شکل میں جس بااصول و باوقار صحافت کا آغاز کیا تھا‘ ایوبی مارشل لاء میں انکے انتقال کے بعد محترم مجید نظامی نے اسکی باگ ڈور سنبھال کر اسے مرحوم حمید نظامی کے وضع کردہ اصولوں کی روشنی میں ہی نہ صرف پروان چڑھایا بلکہ ایک تناور درخت بنا کر میدان صحافت میں جلوہ افروز کیا۔جناب مجید نظامی کے ہاتھوں ترقی و استحکام کی منزلیں طے کرنیوالی یہ صحافتی امپائر آج قومی صحافت کا بھرم بن چکی ہے۔  
 بھارت کے ساتھ تعلقات کے معاملہ میں مجید نظامی نے ہمیشہ ملک و قوم کے مفادات کی پاسداری کی۔ ایک بار ضیاء الحق نے انہیں اپنے ہمراہ بھارت لے جانے کی خواہش کا اظہار کیا تو جناب مجید نظامی نے انہیں دوٹوک جواب دیا کہ آپ میرے ساتھ ٹینک پر چڑھ کر بھارت جائیں تو میں تیار ہوں۔ وہ پوری دیانتداری کے ساتھ یہ سمجھتے تھے کہ بھارت مذاکرات کی میز پر کشمیر ہمیں کبھی پلیٹ میں رکھ کر پیش نہیں کریگا چنانچہ ہمیں اپنی شہ رگ کشمیر کو بزور طاقت ہی دشمن کے خونیں پنجے سے چھڑانا ہو گا۔اپنے بے پایاں جذبے کا اظہار وہ اس یادگار فقرے کے ذریعے کیا کرتے تھے کہ ’’بے شک مجھے توپ کے آگے باندھ کر بھارت پر چلا دو‘ ہمیں کشمیر کے حصول کیلئے بھارت سے نبردآزما ہونا ہی پڑیگا۔‘‘ آج مودی کی جنونیت نے دونوں ایٹمی ملکوں کو عملاً ایک دوسرے کے مقابل لا کھڑا کیا ہے جن کے مابین جنگ پوری دنیا کی تباہی پر منتج ہو سکتی ہے۔ مجید نظامی کو بھی اس کا پورا ادراک تھا اس لئے وہ دشمن کے مقابل ہمہ وقت اپنے گھوڑے تیار رکھنے کی تلقین کیا کرتے تھے۔ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے سے متعلق پانچ اگست 2019ء کے اقدام کے بعد جب مودی سرکارنے  ہذیانی کیفیت میں یہ بڑ ماری کہ کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا تو مجید نظامی کا یہ فلسفہ بھی ایک زندہ حقیقت بنا نظر آیا کہ کشمیر مذاکرات سے نہیں‘ زورِ بازو سے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔  مجید نظامی کی جمہوریت کیساتھ لازوال وابستگی تھی۔ وہ سیاست میں تحمل برداشت، رواداری  اور وضعداری کو ملحوظ  خاطر رکھنے کے قائل تھے اور باہم دست و گریباں سیاست دانوں کو باور کرایا کرتے تھے کہ انکی اس روش کے باعث ہی اقتدار کی بوٹی طالع آزمائوں کے ہاتھ آتی ہے اس لئے حالات اس نہج پرنہ لے جائیں کہ ماورائے آئین اقدام والوں کو پھر جمہوریت کا مردہ خراب کرنے کا موقع ملے۔ انکی یہ بات ہمارے آج کے سیاسی حالات پر بھی صادق آتی ہے۔ آج مجید نظامی کی آٹھویں برسی کے موقع پر نوائے وقت گروپ خداوند کریم سے امام صحافت کیلئے بلندی ِدرجات کی دعا کے ساتھ ساتھ قارئین نوائے وقت اور قوم سے اس عہد کا بھی اعادہ کررہا ہے کہ معمار نوائے وقت مجید نظامی کے اصولی صحافت کے مشن پر کاربند رہ کر انکی جلائی شمع کو کبھی مدھم نہیں ہونے دیا جائیگااور اسلامی جمہوری فلاحی پاکستان کیلئے ان کا مشن جاری و ساری رکھا جائیگا۔خدا ہمارا حامی و ناصر ہو۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...