پاکستان بنے 75 برس گزر گئے۔ حصول کے مقاصد آزادی ، مساوات آج تک لوگوں کو نہیں مل سکے۔ قائداعظم نے سب کو برابری کے حقوق دینے کا اعلان کیا تھا۔ بدقسمتی سے اشرافیہ نے سب وسائل پر پنجے گاڑھ رکھے ہیں۔ ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے۔ ممتا تو بچے کو بھوکا پیاسا دیکھ کر تڑپ اٹھتی ہے۔ یہاں بچوں کے منہ سے نوالہ چھینا جا رہا ہے۔ بھارت کے مسلمان ریاستی جبر کا شکار ہیں ۔ یہاں پر ہم معاشی طور پر بے حال ہیں۔
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے جب بھی حصول پاکستان کے مقاصد کا ذکر کیا تو ان مقاصد میں ایک ایسی اسلامی ریاست کا قیام سرفہرست تھا جہاں قرآن و سنت کی فرمانروائی ہو۔ انہوں نے بارہا کھل کر یہ بات کہی کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے ایک الگ خطے کا مطالبہ بنیادی طور پر ایک ایس سر زمین کے حصول کی کوشش ہے جہاں مسلمان اسلامی ضابطہ حیات، اپنی روایات اور اسلامی قانون کے مطابق زندگی گزار سکیں ۔ 21 نومبر 1945ء کو فرنٹیئر مسلم لیگ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’’مسلمان پاکستان کا مطالبہ کرتے ہیں جہاں وہ خود اپنے ضابطہ حیات۔ اپنے تہذیبی ارتقاء ، اپنی روایات اور اسلامی قانون کے مطابق حکمرانی کر سکیں ۔ ہمارا دین ۔ ہماری تہذیب اور ہمارے اسلامی تصورات وہ اصل طاقت ہیں جو ہمیں آزادی حاصل کرنے کیلئے متحرک کرتے ہیں۔‘‘ اسلامیہ کالج پشاور کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’لیگ ہندوستان کے ان حصوں میں آزاد ریاستوں کے قیام کے علم بردار ہے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے تاکہ وہاں اسلامی قانون کے مطابق حکومت کر سکیں ۔ ‘‘ قائد اعظم سے قبل مسلمان جدوجہد آزادی کی کوششیں کر رہے تھے لیکن انہیں قیادت میسر نہ تھی۔ قائد اعظم نے آکر اس خلا کر پُر کیا۔ قائد اعظم نے دسمبر 1904ء میں ممبئی میں کانگریس کے بیسویں سالانہ اجلاس میں شرکت کر کے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کی۔ آپ اس وقت ہندو مسلم اتحاد کے حامی تھے۔ 1906ء میں آل انڈیا کانگر یس میں شمولیت اختیار کی۔ قائد اعظم محمد علی جناح مسلمانوں کے حقوق کے حوالے سے بڑے سرگرم تھے۔1913ء میں مولانا محمد علی جوہر اور سید وزیر حسن اور دیگر مسلم قیادت نے آپ کو مسلم لیگ میں شمولیت پر آمادہ کیا ۔ اس وقت تک مسلم لیگ بڑے نوابوں کی جماعت تھی۔ اس لیے آپ کا رجحان کانگریس کی طرف رہا ۔ جس کے لیے آپ نے مسلم لیگ اور کانگریس کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوشش کی۔جس کے نتیجہ میں میثاق لکھنو ہوا۔ قائد اعظم محمد علی جناح ان دونوں جماعتوں میں اتحاد کے علمبردار تھے۔ پہلی جنگ عظیم ہونے کے بعد برطانوی حکومت نے اپنے وعدوں سے منحرت ہو کر رولٹا ایکٹ جیسا قانون نافذ کر کے سیاسی اور سماجی سرگرمیوں پرپابندی لگا دی۔ جس سے سارے برصغیر میں تحریک شروع ہوگی اور حکومت نے مارشل لاء نافذ کر دیا۔ 1920ء میں قائد اعظم کانگریس سے ہندو کی ذہنیت کو سمجھتے ہوئے الگ ہوگئے۔ 1930ء میں لندن میں دوسری گول میز کانفرنس میں شریک ہوئے اس میں علامہ محمد اقبال بھی شریک تھے جنہوں نے 1930ء میں مسلم لیگ کے اجلاس آلہ آباد میں اپنا خطبہ صدارت میں ایک متحدہ اسلامی ریاست کے قیام کی نشاندہی کی اس کے بعد دونوں رہنماوں کی ملاقاتیں ہوئیں۔ 1933ء میں لیاقت علی خان جب لندن آئے ۔ انہوں نے قائد اعظم ملاقات کی اور برصغیر آکر مسلمانوں کی قیادت کرنے کی درخواست کی۔ اس پر آپ 1934ء میں برصغیر تشریف لائے ۔ یہاں آکر آپ نے مسلم لیگ کو بحیثیت جماعت متحرک اور منظم کیا ۔ در حقیقت الگ وطن کے حصول کا مقصد لوگوں پر پُرامن زندگی گزارے کا موقع فراہم کرنا تھا لیکن یہاں پر گنگا الٹ ہی بہہ رہی ہے۔ لوگوں کے سیاسی ۔ معاشی اور مالی حقوق کا استحصال ہورہا ہے۔ جب تک عوام کو حقوق نہیں ملیں گے تب تک قیام پاکستان کا مقصد پورا نہیں ہوسکتا۔بانی نوائے وقت حمید نظامی نے تحریک پاکستان کے دوران قائد اعظم کے سپاہی کی حیثیت سے بھرپور کام کیا۔ پنجاب میں تحریک پاکستان کے ہر اول دستے کے طورپر مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کو منظم کرنے میں ان کا کردار تاریخ ساز اہمیت کا حامل ہے۔ حمید نظامی نے پاکستان میں اصولوں پر مبنی صحافت کی بنیاد رکھی ۔ ان کو قلم جمہوری اقدار کے مخالفین کیلئے برہنہ شمشیر کی مانند تھا۔
نظامی برادران نے جہاں قیام پاکستان کیلئے کردار ادا کیا وہی پر ’’استحکام پاکستان‘‘ کیلئے بھی انکی خدمات قابل رشک ہیں ۔ مجید نظامی نے جس مقصد کیلئے اپنے زیر ادارت نوائے وقت کو وقف کر دیا وہ نامساعد ملکی حالات کے ہوتے ہوئے ملک کو بھارت جیسے ازلی دشمن کے مقابلے میں ناقابل تسخیر ملک بنانے کی مہم تھی۔ انہوں نے اپنے ادارویوں میں بھارت کے مطالبے کو عوامی تحریک کی شکل دیدی ۔ بالآخر ان کی کوششیں رنگ لائیں۔ آبروئے صحافت جناب مجید نظامی نے واشگاف الفاظ میں کہا تھا۔ میاں صاحب اگر آپ ایٹمی دھماکہ نہیں کریں گے تو قوم آپ کا دھماکہ کر دے گی ۔ جس کے بعد بالآخر میاں نواز شریف نے ایٹمی دھماکے کر کے ملک کو مستحکم کر دیا۔ ایک بھائی نے ملک بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا جبکہ دوسرے بھائی نے ملک کو مستحکم بنانے میں کردار ادا کیا۔آج انکی آٹھویں برسی پر ملک و ملت و صحافت کیلئے انکی خدمات انکے زندہ جاوید ہونے کی گواہی دے رہی ہیں۔