پاکستان کے صحافیوں کے سرتاج کالم نگاروں کے کالم نگارمجیدنظامی 9اپریل1928ء کو سانگلہ ہل میں پیدا ہوا ۔ 1962ء سے 2014ء تک نوائے وقت کے ایڈیٹر کی حیثیت سے صحافت کی وہ خدمت کی جو انمٹ نقوش چھوڑ گئی۔ آپ 26جولائی 2014ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے مگر وہ اپنے شفاف کردار، وقت کے ہر فرعون کے سامنے کلمہء حق کہنے اور پکے سچے عاشق رسول ﷺ ہونے کی وجہ سے قیامت تک زندہ رہیں گے ۔ کیونکہ جناب علیؓ کے بقول کسی شخص کو موت نہیں آتی اس وقت تک جب تک وہ لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتا ہے اصل موت اس وقت آتی ہے جب لوگ اسے اپنے دل سے نکال دیتے ہیں۔
جناب مجید نظامی صاحب کی ساری زندگی نظریہء پاکستان اور دوقومی نظریہ کو زندہ رکھنے میں گزری۔ آپکی شخصیت ، جرأت و بہادری صحافت کی خدمت ہندو بنیئے سے نفرت پاکستان کے نوجوانوں کی کردارسازی خاص طور پر طالب علموں کے ذہنوں میں نظریہ ء پاکستان اور دوقومی نظریہ کو زندہ رکھنے پاکستان کیلئے قربانیوں کا تذکرہ اور ہندو بنیئے کی ذہنیت کے بارے میں یہ کہتے ہوئے کہ ہندو کے اگر پائوں پڑو گے تو یہ ٹھوکر مارے گا اور اگر اس کا گریبان پکڑ و گے تو یہ پائوں پکڑے گا کا سبق دیتے ہوئے گزری اوربچوں کو ہمیشہ یہ درس دیتے رہے کہ ہندو اور مسلمان کبھی اکٹھے نہیں رہ سکتے تھے اسی لیے پاکستان آقا کریمﷺ کے ایجنڈے پر دنیا کے نقشے پر واحد اسلامی نظریاتی مملکت کے طور پر نمودار ہوا۔
آپ کی خدمات اتنی زیادہ تھیں کہ ان کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے حکومتِ پاکستان نے انہیں ستارہ امتیاز، نشان امتیاز اور ستارہ پاکستان جیسے اعزازات سے نوازا۔خاص بات جس کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ اس وقت کسی کو سفارش کی بجائے قطعی طور پر میرٹ پر صدارتی تمغوں سے نوازا جاتا تھا ۔
میں چشم دید گواہ ہوں کہ جب ایوان تحریک کارکنان پاکستان میں مختلف نظریاتی زعماء کے پرجوش خطابات کے ساتھ جب قوم کے ہونہار طالبعلموں سے پاکستان کی محبت، دوقومی نظریہ اور پاکستان کیلئے بڑی سے بڑی قربانی دینے کے تجدید عہد نظریہء پاکستان کے بھرپور دفاع کا عہد کرتے اور جذباتی انداز میں پاکستان بنایا تھا پاکستان بچائیں گے وطن کو ہم عظیم سے عظیم تر بنائیں گے کا نعرہ ء مستانہ لگاتے سنتے تو آپکے چہرے کے تاثرات دیدنی ہوتے تھے۔
آپ ہمیشہ یہ کہتے کہ اس جذبے کو کوئی شکست نہیں دے سکتا البتہ قومی لیڈرشپ سے آپ اتنے مطمئن نہیں تھے ۔ جناب مجید نظامی صاحب کا دل سب سے زیادہ اس وقت دکھتا تھا جب وہ قومی نظریہ کی بجائے نظریہ ضرورت کو پنپتے ہوئے دیکھتے تھے ۔ آپ فرماتے کہ نظریۂ ضروت زہرِ قاتل ہے جو قوم کو بربادی کی طرف لے جائے گا ۔
آپ کے خیال میں نظریہ ضروت کی طرف لیڈرشپ کا گامزن ہونا اور ہندو سے دوستی کرنے کی غلطی نے بربادی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ میں نے جناب مجید نظامی صاحب کو یہ تاریخی الفاظ کہتے ہوئے دیکھا ہے کہ کشمیر ہندو بنئیے کی منت سے نہیں مرمت سے آزاد ہو گا۔آپ ہمیشہ ڈکٹیٹر شپ کے سامنے ڈٹے رہے اور کبھی اصولوں پر سودے بازی نہیں کی۔ کلمہء حق کہنا اپ کی شخصیت کا خاصہ تھا۔
میری جناب مجید نظامی صاحب سے روحانی وابستگی تھی میں نے آپ سے بہت سیکھا ہے ۔مجھے آپ کی زیر صدارت بہت سے پروگراموں میں بات کرنے کا موقع ملا میں ایک نظریاتی آدمی ہوں اور جتنا نظریاتی ہوں اس سے زیادہ نظریہ ضرورت سے نفرت بھی کرتا ہوں ۔ آج کے ملکی حالات اور ان حالات میں سیاستدانوں میڈیا اور دیگر اداروں کا رول دیکھ کر آپکی روح یقینا تڑپتی ہوگی کہ پاکستان کو اپنوں کے ہاتھ سے ہی زخم لگائے جا رہے ہیں ۔ آج بہت سے لوگ اپنی ذمہ داریوں سے چشم پوشی کر رہے ہیں۔ پاکستان کو لگی آگ بجھانے کی بجائے صرف اپنے گھروں اور خاندانوں کو بچانے کیلئے لگے ہوئے ہیں ۔
افسوس کہ آج سیاست میں نوابزادہ نصراللہ ہیں نہ صحافت میں مجید نظامی ہیں۔ ہر طرف غیر پیشہ ور لوگوں کی بہتات ہے۔ پاکستان میں انتظامی معاملات اتنے خراب ہیں کہ خود سیاستدان پاکستان کے سری لنکا جیسے حالات کی پیشن گوئی کر رہے ہیں ۔ شرم وحیا دفن ہو گئی ہے۔ پاکستانی سیاستدان اور بہت سے ذمہ داران بے نقاب ہو گئے ہیں ۔ بقول شاعر:
بڑے ظالم ہیں تیرے شہر کے لوگ
قتل کر کے پوچھتے ہیں یہ جنازہ کس کا ہے
آج اگر مجید نظامی صاحب زندہ ہوتے تو وہ حق کے ساتھ کھڑے ہو کر اپنا رول ضرور ادا کرتے۔ مگر میں مایوس ہرگز نہیں ہوں جناب مجید نظامی صاحب جو پاکستان سے محبت نظریۂ پاکستان کی پنیری لگا کر گئے تھے اب وہی یوتھ پاکستان کی حفاظت کا ذمہ لے گی انھیں میں سے مجید نظامی پیدا ہوں گے ۔ میں اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوں انشا اللہ جناب نظامی صاحب کی سوچ زندہ ہے اور وہ پاکستان کو آگ لگانے والوں کے ہاتھ ضرور کاٹے گی۔ پاکستان پر قبضے کیلئے خریدو فروخت کرنے والے انشااللہ نشان عبرت بنیں گے۔
جب تک جناب مجید نظامی کے چاہنے والے زندہ ہیں ان کا پاکستان کا سفر جاری رہے گا اور انشااللہ پاکستان ایشیاء کا ٹائیگر بن کے رہے گا۔