تیرا شعور صحافت ،نصاب لوح و قلم۔۔۔

 کاغذ کے چند صفحات پر کچھ خبریں اور چند تاثرات مرقوم کر کے،انہیں دنیا اور ملک و قوم تک پہنچانا صحافت نہیں۔صحافت کا دائرہ کار بہت وسیع ہے بلکہ اس میں گو نہ گوں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ہم نے عملی صحافت ،صحافیوں کے کردار سے سیکھی ہے ،بلا شبہ بہت سے اخبار ایسے بھی ہیں جو یونیورسٹی کا درجہ رکھتے ہیں اور ہر دور میں منجھے ہوئے صحافی ان داروں سے میدان صحافت میں پیش عمل رہے۔مجھے فخر ہے کہ میں نوائے وقت کا قاری بھی ہوں اور لکھاری بھی۔نوائے وقت محض ایک اخبار نہیں، ایک عہد ہے۔مستند اورمعیاری خبروں کے علاوہ نوائے وقت ایک سوچ اور نظریہ پر بھی قائم رہا۔ نظامی برادران کا مقصد نظریہ کی شکل اختیار کر گیا۔ 
مجید نظامی مرحوم اپنے فکر و تصور، اپنے رحجانات میلانات کے لحاظ سے اس قدر غیر معمولی انسان تھے کہ بیک وقت نہ ہم ان کے جملہ صحافت کا احاطہ کر سکتے ہیں اور نہ ان کی نظریاتی سوچ کے چند مختلف حصوں کو منقسم کر کہ ان کی علمی اور عملی خصوصیات کے درمیان کوئی حد فاضل قائم کر سکتے ہیں۔ جہاں وہ ایک صحافی تھے۔ وہیں ایک مفکر و مدبر بھی تھے۔ ان کے اندر ایسی خصوصیات موجود تھیں جن کی نظیر دنیائے صحافت میں نہیں ملتی۔ ان کی زندگی دو ادوار پر مشتمل تھی۔ ایک زمانہ طالب علمی اور دوسرا صحافتی۔ نظریہ دونوں ادوار میں حاوی رہا۔ 
دوراندیشی، وسعت نظر کا کمال تھا کہ آج کی سیاست کے سب سے بڑے کھلاڑی آصف علی زرداری کو بہت پہلے مرد حر کا خطاب دیا۔ مجید نظامی مرحوم نے ایک انٹرویو میں فرمایا تھا:
میں مخالفت کو مخالفت کی حد تک رہنے دیتا ہوں، اسے دشمنی میں تبدیل نہیں کیا، نہ ہی کسی اور کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ دشمن بن جائے، پروفیشن کو اپنی جگہ رکھا، تعلق اپنی جگہ رکھا۔ پروفیشن کی خاطر جو قیمت بھی ادا کرنا پڑی بخوشی ادا کی۔ 
ملک میں جمہوریت اور پاکستانیت کے جذبے کے فروغ کے لیے آپ کے قائم کردہ ادارے آج بھی نظریاتی فوج کی آبیاری میں مصروف عمل ہیں۔ آپ حقیقی معنوں میں قائد کے سپاہی اور اقبال کے مرد مومن تھے۔ کلمہ حق بلند کرنے کی سوچ آپ کی ٹھوس پالیسی کا حصہ رہی۔ 
مجید نظامی ہم میں نہیں، لیکن ان کی تعلیم و تربیت پر بہترین کام ہو رہا ہے۔ نظامی صاحب کی رحلت کے موقعہ پر بھی میں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ نظامی صاحب کے جانے سے ان کا خلاء پر نہیں ہو سکتا، مگر ان کے قریبی ساتھیوں میں بیٹھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ آدھی سے زیادہ زندگی پوری کرنے والے نظریاتی بزرگ اپنے رفیق کو کسی لمحہ نہیں بھول پائے، وہ آج بھی دوستی میں وفا کا بہترین نمونہ پیش کر رہے ہیں۔ وہ محسوس ہیں کہ ان کا ساتھی، دوست ، دلدار اپنی یادوں کے ساتھ ہرسو پھیلا ، زندہ و جاوید نظر آتا ہے۔ ہمیں نظامی صاحب کی سوچ اور فکر کی بیٹھک سجانی ہو گی ایک بار پھر ’’بزم نظامی‘‘ آباد کرنی ہو گی۔ مجید نظامی مرحوم کے مشن کو آگے بڑھانے کا عمل جاری رکھنا ہو گا، بہترین قوم وہی ہے جو اپنے بزرگوں کے فکر و عمل کو اپنا تشخص بنا لے۔ سوچ کا لمحہ  ’’بزم نظامی‘‘ آباد کرنے پر زور دے رہا ہے۔ 
میرے کاروں ہم تھے، روح کاروں تم ہو 
ہم تو صرف عنوان ہیں، اصل داستان تم ہو 
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن