آزادی اللہ رب العزت کا بہت بڑا انعام ہے۔ آزادی حاصل کرنا آسان نہیں اس کیلئے بڑی مصیبتیں جھیلنا پڑتی ہیں۔آزادی قربانیاں مانگتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ برصغیرپاک و ہند کی تقسیم کے وقت مسلمانوں کی ہجرت اور لاکھوں جانوں کے نذرانے جغرافیہ کے لیے نہیں بلکہ ایک نظریہ کے لیے تھے۔قائد اعظم حضرت محمد علی جناح رحمتہ ا للہ علیہ پاکستان کو ایسی مملکت بنانا چاہتے تھے جہاں قرآن اور سنت کا دستور نافذہو۔ پاکستان دو قومی نظریہ کی بنیاد پر قائم ہوا اس لیے پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کے ساتھ اس کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ تاریخ اقوام عالم گواہ ہے کہ جو اقوام اپنی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت میں ناکام رہیں ان کی جغرافیائی سرحدیں بھی محفوظ نہ رہ سکیں۔ بدقسمتی یہ ہوئی کہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی بیرونی اور اندرونی دشمنوں نے ملک عزیز کی نظریاتی سرحدوں کو کمزور کرنے کے لیے سازشوں کا آغاز کر دیا۔کبھی قیام پاکستان کو مشکوک بنانے کی کوششیں ہوئیںکبھی مسلم رہنمائوں، بانیان پاکستان کی کردار کشی کی گئی۔ پاکستان کو ایک سیکولراور لبرل سٹیٹ بنانے کی مکروہ سازشیں آج بھی جاری ہیں۔ خوش قسمتی یہ ہوئی کہ دشمنان پاکستان اور اسلام کے مکروہ عزائم کو خاک میں ملانے کے لیے اللہ رب العزت نے جناب حمید نظامی صاحب اور جناب مجید نظامی صاحب کو چن لیا۔ ان دونوں ہستیوں نے اپنی زندگیاں اس مقد س مشن کے لیے وقف کر دیں۔ جناب حمید نظامی صاحب کے وصال کے بعد جناب مجید نظامی نے اس محاذ پر ڈ ٹ کر مقابلہ کیا اور تقریباً نصف صدی تک ایک عظیم جہاد کیا۔ روزنامہ نوائے وقت کی صورت میں قلمی جہاد کے ساتھ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی صورت میں فکری محاذ پر سرگرم رہے۔ ٹرسٹ نے پاکستان کے حوالے سے یادگار تقریبات کا آغاز کیا۔ بانیان پاکستان کی شخصیات اور ان کی خدمات کو عوام کے قلوب و اذہان پر نقش کیا۔
ہر سال با قا عد گی سے تحریک پاکستان کے کارکنوں کو خراج تحسین اور ہدیہ تبریک پیش کرنے کے لیے تقریبات منعقد فرماتے۔ آپ نے کئی باراہم اور نازک مواقع پر حکمرانوں کی رہنمائی فرمائی۔ سچی بات یہ ہے کہ آپ عظیم دانشور تھے، ملکی حالات پر گہری نظر رکھتے تھے اس لیے حکمران آپ سے رہنمائی کے طلب گار ہوتے تھے۔
آج بھی قوم کو ملک کی سلامتی و خودمختاری اور ایک حقیقی اسلامی جمہوری فلاحی معاشرے کی تشکیل کے حوالے سے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ جب بھی پاکستان اور اسلام کے خلاف سازشیں منظر عام پر آتی ہیں تو جناب حمید نظامی اور جناب مجید نظامی بڑی شدت سے یاد آتے ہیں۔ الحمد للّٰہ ! نوائے وقت آپ کے عظیم مشن پرکاربند ہے۔ قوم پراعتماد ہے کے محترمہ رمیزہ نظامی صاحبہ کی لیڈر شپ میں روزنامہ نوائے وقت ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کا فریضہ سر انجام دیتا رہے گا۔ جناب مجیدنظامی 26 جولائی 2014ء ستائیس ویں رمضان کی شب کو اس جہانِ فانی سے رحلت فرما گئے۔ایسا بابرکت دن خوش نصیب لوگوں کوہی نصیب ہوتا ہے۔وہ ہمیشہ دھیمے انداز میں گفتگو فرماتے لیکن جب بات ملکی مفادات، نظریہ پاکستان اور اصولوں کی ہوتی تو پھر چٹان کی طرح ڈٹ جاتے اس وقت آپ کا جلال دیکھنے والا ہوتا تھا۔ بہت دفعہ حکومت اور حکومتی مشینری کی سختیوں اور دبائو کا سامنا کرنا پڑا مگر آپ کے استقلال میں کبھی کوئی لرزش پیدا نہ ہوئی۔ آپ حضرت اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے مرد مومن تھے۔ دشمنان اسلام اور دشمنان پاکستان کے لئے شمشیربرہنہ تھے۔ علامہ نے ایسی ہستیوں کے بارے میں ہی کہا تھا کہ
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
جناب مجید نظامی اولیاء کرام اور صوفیا سے خاص انس رکھتے تھے۔ روزنامہ نوائے وقت کی دینی اشاعت اور میگزین میں ان کے حالات زندگی اور تعلیمات شائع فرماتے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جب روزنامہ نوائے وقت نے حضرت مولانا جلال الدین رومی کی یاد میں سال منایا۔ ہر روز ادارتی صفحہ پر مثنوی سے چند اشعار ترجمہ کے ساتھ شائع ہوتے تھے۔ قارئین نے اس سلسلہ کو بہت پسند کیا تھا۔ جناب مجیدنظامی صاحب نے جناب حمید نظامی صاحب کے لگائے پودے کی آبیاری کی اور اس کو ایک تناور درخت بنا دیا۔ پون صدی گزر گئی روزنامہ نوائے وقت آج بھی انہی تابناک اصولوں پر چلتے ہوئے صحافت کی خدمت کے ساتھ ملک‘ قوم کی ترقی اور رہنمائی کا فریضہ ادا کررہا ہے۔ دعاہے کہ یہ قافلہ اپنی شان و شوکت کے ساتھ منزل کی طرف رواں دواں رہے۔