نظریاتی سرحدوں کے کمانڈر انچیف

ہائبرڈ یا ففتھ جنریشن وار کا شکار پاکستان آج چیخ چیخ کر پُکار رہا ہے قوم کے اس عظیم ہیرو کوجو ان خطرات کی دہائی کئی برسوں پہلے سے دیتے دیتے اللہ کو پیارے ہو گئے ۔ اس نے نہ صرف اپنے اشاعتی ادارے ’’نوائے وقت‘‘ کے تمام تر مفادات کو دائو پر لگا کر غیر محسوس انداز سے لڑی جانے والی نظریاتی ، ثقافتی ، معاشی ، معاشرتی سیاسی، سماجی جنگوں کے خطرات سے ارض پاک کے تحفظ کے لئے جان ہتھیلی پر رکھے سینہ سپر تھا ۔ اس نظریاتی تصادم کا نہ صرف اپنے اشاعتی مورچوں نوائے وقت، فیملی، پھول وغیرہ کے صفحات پر جہاد بالقلم کے ذریعے سامنا کر رہا تھا بلکہ ایوان وقت میں لا تعداد سیمینارز، مباحث اور تربیتی ورکشاپس سے بھی متحرک تھا اور اس سے بڑھ کر تحریر و تقریر ایک اور فورم نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے ذریعے مجاہدین تحریک پاکستان کی عظمتوں کو سلام کے ذریعے پاکستان کی خوبصورت و تابناک تاریخ کو تازہ کر رہا تھا بلکہ آئیندہ آنے والی نسلوں کو اسلامی نظریاتی آبیاری کے ذریعے اپنے مستقبل کو بھی محفوظ بنانے کے لئے شب روز ایک کئے ہوئے تھے۔ یہ عظیم ہیرو پاکستان کے نامور سپوت مجید نظامی تھے ۔
ان کا کردار ان کے اپنے زیر سایہ ان اداروں تک ہی محدود نہ تھا بلکہ ملکی و قومی سیاست میں اسلام جمہوریت اور ہر اس جابر حکمران جو اسلامی ، عوامی حقوق کی پامالی کا موجب بن رہا ہوتا ، جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کا ادا کرنے کا فریضہ ادا کرتے ، نوائے وقت کی پیشانی پہ لکھا یہ کلمہ صرف نعرہ یا سلوگن ہی نہیں تھا بلکہ مجید نظامی اسے اپنے کردار و عمل سے بہت سے نا مساعد حالات کا سامنا کرتے ہوئے کر رہے تھے ۔ کون سا آمر ہو گا جسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس مرد مجاہد نے کلمہ حق سر بلند نہ کیا ہو۔
 آج ثقافت بے چارگی کا شکار اپنے مسیحا کو یاد کر رہی ہے ۔ پیکا ایکٹ ہو یا نام نہاد نئے پاکستان کے نعرے لگانے والوں کے فاشزم پر مبنی دیگر اقدامات حق گو صحافیوں کی گمشدگی سے لیکر قید و بند اور شہادتوں کے واقعات یزیدی عہد میں حُسینیت کا علمبردار شدت سے اپنی عدم موجودگی کا احساس دلا رہا ہے جنہوں نے زبان و قلم کو ذریعہ جہاد بنایا ۔ 
قائد اعظم محمد علی جناح نے قلم کی طاقت کا اعتراف ان الفاظ میں کیا " اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ ہم نے پاکستان خون ریز جنگ لڑے بغیر پُر امن ذرائع سے اخلاقی و فکری قوتیں بروئے کار لا کر قلم کی طاقت سے حاصل کیا جو تلوار سے کم طاقتور نہیں ہوتا ، ہمارے بر حق مقصد کو کامیابی نصیب ہو ئی (31اگست 1947 ) قائد اعظم کے پیرو کار مجید نظامی انہی کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے قیام پاکستان کی طرح میڈیا کے ذریعے استحکام پاکستان کی جنگ لڑ رہے تھے۔مجید نظامی صاحب کی شخصیت آج نام نہاد صحافیوں کے منہ پر طمانچہ ہے تو عظمت حُرمت قلم کے پاسداران حق گو صحافیوں اور میڈیا گروپس کے لئے بہترین رہنمائی بھی انھوں نے اپنے عمل سے درس دیا کہ اصولوں پر ڈٹے رہنے سے کمزوریاں نہیں طاقت ملتی ہے وقتی رسوائیاں مستقل عظمتوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں ۔
نظامی صاحب صرف اقوال کی حد تک ایک اچھے انسان نہیں تھے وہ ایک جمہوری مزاج کے سنجیدہ فکر متوازن طبعیت کے دھیمے لہجے سے بلند فکر کے ساتھ ان کی آوازبلندیوں کوچھوتی راقم نے ایک دو بار مثبت انداز سے اختلاف پر مبنی خط لکھے جن کا جواب انھوں نے انتہائی تحمل و بردباری سے مجھ جیسے طالبعلم کو دئیے میرے دل میں ان کی قدر میں اضافہ ہوا کہ آمر حکمرانوں سے تلخ لہجے میں بات کرنے پر بھی وہ کس شفقت سے وضاحت کر رہے ہیں ۔
مجید نظامی صاحب مرحوم جیسے زندہ کردار قبر میں بھی زندہ رہتے ہیں ، مردہ کردار ومردہ ضمیر زندگی میں بھی مردنی پھیلائے اور پرمژدگی کا شکار ہوئے رہتے ہیں ۔خدائے لم یزل زندوں کا خدا ہے اور اپنے پاس بُلا کر بھی حق و صداقت کے علمبرداروں کا علم بلند رکھتا ہے اور زندگی میں جیسے مخلوق خدا ان سے فیض یاب ہو رہی ہوتی ہے مرنے کے بعد بھی وہ اپنی تعلیمات اپنے اقوال اپنے اخلاق و کردار کے ایسے دیئے روشن کر جاتے ہیں جنہیں بڑی سے بڑی آندھیاں بھی بجھا نہیں پاتیں۔
 نظامی صاحب محض اداروں کے سربراہ ہی نہیں خود ایک ایسا ادارہ تھے جن کے تعلیم و تربیت یافتہ صحافیوں کی ایک بڑی کھیپ صدقہ جاریہ کی شکل میں اور اعلیٰ و پاکیزہ مشن کی صورت میں تا قیامت زندہ و جاوید رہے گی میں انھیں نظریاتی سرحدوں کے محافظین کا کمانڈر انچیف کا لقب دیتا تھا ۔ کہ وہ فکر اقبال کے سچے شیدائی اور قائد اعظم کے بہادر سپاہی تھے ۔ حق و صداقت اور مے توحید و عشق رسول ؐ کے نشے سے معمور کرنے والے تیرے مے خوار زبان حال سے اپنے ساقی کو پُکار رہے ہیں 
؎ ویران ہے میکدہ خُم و ساغر اداس ہیں
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے 

ای پیپر دی نیشن