امام صحافت سے نیاز مندی 

امام صحافت جناب مجید نظامیؒ سے نیاز مندی کو اپنا صحافتی سرمایہ سمجھتا ہوں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے عہدمیں ان کے خلاف تحریک نظام مصطفی جاری تھی ہدایت اختر مرحوم اس وقت روزنامہ نوائے وقت راولپنڈی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہوا کرتے تھے اسی دوران کلرسیداں سے نوائے وقت کی نمائندگی ملی یہ وہ دور تھا جب ذرائع ابلاغ پی ٹی وی،ریڈیو پاکستان کے سوا اخبارات تک ہی محدود تھا آج کی طرح مختلف اقسام کے ٹی وی چینل تھے نہ سینکڑوں کے حساب سے اخبارات شائع ہوتے تھے، گنتی کے اخبارات تھے جو لوگوں کی معلومات کا واحد ذریعہ تھے مگر اس وقت اخبار کی بڑی اہمیت تھی آج کی نسبت ان ادوار میں سرخی پر سب سے ذیادہ توجہ دی جاتی تھی  سب ایڈیٹر خبر میں سے سرخی اٹھانے کی بجائے خبر کے مندرجات کے مطابق الگ سے ایسی سرخی لگا کر منظر کشی کرتے تھے کہ لوگ سارا سارا دن اسی سرخی پر تبصروں میں بسر کردیتے تھے بھٹو کے خلاف تحریک میں شدت آتی گئی کلر سیداں سے بھی ہر جمعہ کو پانچ افراد بھٹو رجیم کے خلاف رضاکارانہ گرفتاری پیش کرتے تھے نماز جمعہ کے بعد پاکستان قومی اتحاد کے نوستاروں پر مشتمل جماعتوں کے رہنما اور کارکنان نعرے بازی کرتے مین چوک آتے جہاں مقررین کے خطاب کے بعد پانچ افراد مقامی پولیس کو گرفتاری پیش کرتے یہیں سے اپنی صحافت کا آغاز ہوا اس ادارے سے بہت کچھ سیکھنے کے بے شمار مواقع میسر آئے اس دور میں صفحہ چار پانچ لوکل مضافاتی علاقوں کے لیئے مختص ہوتے تھے جن میں خبروں کے ساتھ ساتھ مکتوبات بھی شائع ہوا کرتے تھے ان دو صفحات کے کے لئے مری سے امتیاز الحق,ٹیکسلا سے قاری ولی الرحمان،فتح جنگ سے صاحب زادہ سعید اختر سلیمانی،پنڈی گھیپ سے (خدابخش),کے بی عزیز،چکوال سے جمیل ہاشمی،گوجرخاں سے ملک وزیر محمد،کہوٹہ سے صوفی محمد ایوب،واہ کینٹ سے افضل قریشی،تلہ گنگ سے میاں محمد ملک کلرسیداں سے راقم روزانہ کی بنیاد پر خبریں مہیا کرتے تھے۔جب بھی کوئی مسئلہ درپیش ہوا تو جناب مجید نظامی کے نوٹس میں لاتے وہ کمال محبت سے اسے فوری حل کرتے تھے  ایک بار میں سیر تفریح کے لیئے لاہور گیا تو وقت لیئے بغیر نوائے وقت کے دفتر جا پہنچا ان دنوں جعفری مرحوم ان کے سیکرٹری ہوا کرتے تھے ان سے جناب مجید نظامی صاحب سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا پھر اگلے چند منٹوں میں میں جناب مجید نظامی کے سامنے موجود تھا انہوں نے خیریت دریافت کی کلرسیداں کے علاقہ پر مختصر گفتگو ہوئی اور اسی دوران میں نے دفتری کارڈ کا تقاضا کردیا جسے انہوں نے فوری منظور کرتے ہوئے اپنے سیکرٹری سے کہا کہ انہیں چائے کے ساتھ بسکٹ پیش کریں فوٹو گرافر کو بلا کر تصویر بنوائیں اور کارڈ تیار کرکے میرے پاس لے آئیں جس پر من و عن عمل ہوا اور پھر میں کارڈ کے ہمراہ واپس لوٹا اس کے بعد جب بھی انہیں خط لکھا ہر بار ان کے دستخطوں سے جواب ضرور ملا وہ اپنے نمائندوں کی بڑی قدر کرتے تھے وہ بلاشبہ صحافت کے امام تھے وہ نوائے وقت کی ایک ایک خبر اور اس میں شائع ہونے والے مضامین پر بھرپور توجہ دیتے تھے انہوں نے نوائے وقت کو نہ صرف آزاد پالیسی دی بلکہ صحافت کے میدان میں حق گوئی و بے باکی اور جرات کی ایسی روایات کی بنیاد ڈالی جو آج تک مشعل راہ ہے،جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق بلند کرنا کوئی ان سے سیکھے انہوں نے جنرل ضیاالحق کی موجودگی میں جمہوریت کی بات کی اور انہیں باور کروایا کہ آپ کے تمام تر اقدامات جمہوریت کا نعم البدل ثابت نہیں ہوئے جو کام سیاستدانوں کا ہے انہی کو کرنے دیں۔شہباز شریف ان کا بیحد احترام کرتے تھے مگر انہوں نے خود پر کسی جماعت کی چھاپ نہ لگنے دی پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری کو مرد حر کا خطاب بھی جناب مجید نظامیؒ نے دیا تھا اس سے قبل جب جنرل ضیاالحق نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لا نافذ کیا تو اس وقت بھی نوائے وقت ہی واحد اخبار تھا جو پیپلز پارٹی سمیت اپوزیشن کی آواز بنا،ادارتی پالیسی میں اسلام،نظریہ پاکستان،کشمیر اور بنگلہ دیش میں محصور لوگوں کے لیئے نوائے وقت ہمیشہ اپنی اصولی پالیسی پر کاربند رہا جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنا اور ملی و قومی مفادات پر اپنے مفادات کو قربان کرنے کا حوصلہ انہی کا خاصا تھا،اخبارات کی دنیا میں ایک منفرد سوچ اور طرز عمل کا حامل فرد ہونے کے باعث جناب مجید نظامیؒ کا امتیاز آج بھی برقرار ہے مقاصد کے حصول کی راہ دکھانا دینی غیرت ،قومی وقار،ملی حمیت کے پرچم کو ہمیشہ سربلند رکھا اور اسلامی تعلیمات،اخلاقی اقدار،صحافتی مسلمہ اصولوں کی کامل پاسداری انہی کا طرح امتیاز تھا۔نوائے وقت ملک پر آمریت کی سیاہ طویل راتوں کی تاریکیوں میں امید اور روشنی کی ایک امید رھا اور اس کا سہرا بلاشبہ جناب مجید نظامی ؒکو ہی جاتا ہے وہ کسی بھی فیصلے سے قبل دوسری جانب سے موقف ضرور لیا کرتے تھے اسلام پاکستان کشمیر اور جمہوریت سے کمٹمنٹ پر آج محترمہ منزہ نظامی بھی اسی سپرٹ سے عمل پیرا ہوکر جناب مجید نظامی کے افکار کو زندہ رکھے ہوئے ہیں نوائے وقت کی انہی افکار سے لازوال محبت اسے دوسروں سے ممتاز رکھتی ہے آج کے اس دور میں جب سوشل میڈیا،نجی ٹی وی چینل کی بھرمار نے پرنٹ میڈیا کی اہمیت و افادیت کو خاصا متاثر کیا مگر اس کے باوجود نوائے وقت آج بھی دیگر اداروں سے قدرے بہتر ہے تو اس کی وجہ مجید نظامی کی جلائی ہوئی وہ شمع فروزاں ہے جسے منزہ نظامی بھی بجھنے نہیں دیتیں وہ ان افکار کی محافظ ہیں ان کا یہ عمل ہر  محب وطن شخص قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔پالیسی مرتب کرنا اور پھر اس پر ڈٹ جانا کوئی نوائے وقت سے سیکھے یہ اسی کا اعجاز ہے جناب مجید نظامیؒ کو ہم سے بچھڑے آج آٹھ برس ہو چکے ہیں ملک میں ہے در ہے پیش آنے والے سیاسی بحرانوں سے نکالنے کے لیئے آج بھی فکر نظامی سے رہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے 
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لہیم 
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیئے

ای پیپر دی نیشن