مجید نظامی، چند باتیں اور یادیں  

جناب مجید نظامی  تین مارچ  1928 میں پیدا ہوئے 26-07-2014   تک بھر پور زندگی گزاری ۔ 27 رمضان سحری کے وقت  ا ﷲ کو پیارے ہوئے۔ قدرت نے اپنے پاس بلانے کا کیا خوبصورت دن اور وقت مقرر کیا۔ یہ ہے نیک بندوں کی  نشانیاں ہیں ۔آج کا میرا یہ کالم ان نوجوان نسل کے نام ہے ۔ محترم مجید نظامی کا جنم سانگلہ ہل میں ہوا ۔ الیمنٹری تعلیم گورنمنٹ ہائی اسکول سے  ابتدائی  تعلیم حاصل کی، لاہورسے  میٹرک اور  اسلامیہ کالج لاہور سے ایف اے پاس پاس کیا اور بے اے گورنمنٹ کالج لاہور سے کیا ۔پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے پولیٹیکل سائنس سے کیا۔آپ  نے گریجویشن کے بعد لا کی تعلیم حاصل کرنے  لندن گئے  ۔ وہاں بار کا امتحان  اپنے بڑے بھائی حمید نظامی کی وفات کی وجہ سے نہ دے پائے ۔ یہ جنرل ایوب خان کا مارشل لا کا دور تھا ۔ بڑے  بھائی حمید نظامیؒ 1962  میں انتقال فرما گئے۔ ملک میں  صدارتی الیکشن ہوئے تو اس میں آپ نے محترمہ فاطمہ جناح کو سپورٹ کیا۔ اس کے بعدجنرل یحیی خان کی حکومت کو اپوز کیا۔ اسی طرح ضیا الحق کے زمانے میں مارشل لا حکومت کی بھر پور مخالفت کی ۔ جو بھی اقتدار میں آیا سب نے  نوائے وقت کو مشکل  وقت میں ڈالا ۔ ہمیشہ وہ لکھا جو سچ اور اس ملک کی بہتری کے لئے اچھا ہوتا ۔آپ کبھی بھی کسی بھی حکومت کا حصہ نہیں بنے ۔ آپ نے ہمیشہ کشمیر کی آزادی کی آواز کو اجاگر کیا ۔ کبھی بھی آپ نے بھارت جانا گوارہ نہ کیا۔ مجید نظامیؒ کا کہنا تھا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ نیوکلیئر وار کرے ۔وہ بھارت کو پاکستان کا ازلی دشمن سمجھتے تھے ۔ آپ کا کہنا تھا کہ بھارت کو دشمنی کا مزا چکھانا ضروری ہے ۔ آپ پاک چین دوستی کے حامی تھے۔ آپ ہمیشہ انسانی حقوق کے لئے کام کرتے رہے۔ 2005 میں آپ کو انسانی حقوق کا ایوارڈ دیا گیا ۔ مجید نظامی صاحب کو ستارہ  پاکستان  اور ستارہ امتیاز دیا گیا ۔    نشان امیتاز وزیراعظم جو نیجو  نے انہیں اس ایوارڈ کے لئے منتخب کیا تھا۔ میاں نواز شریف نے بطور وزیراعظم اپنے والد کے ہمراہ مجید نظامی کو صدارت  کی آفر کی لیکن آپ نے انکار کردیا   ۔ آپ نے شریف خاندان کو مشورہ دیا کہ یا حکومت کریں یا کاروبار  دونوں  ایک ساتھ نہیں کرنا۔  مجید نظامیؒ سے راقم سے ملاقاتوں کا سلسلہ آپ کے دوست انورنسیم بیگ کی آنٹی اختر کی رہائش گاہ اور انکی بیھٹک سے شروع ہوا۔ اس ٹیبل تک پہنچنے میں چوہدری جاوید راشد حجازی کا مشکور و ممنون ہوں ۔ انکل نسیم بیگ کی ٹیبل اس وقت پورے پاکستان میں جانی جاتی تھی۔محترم  مجید نظامیؒ کا جب بھی اسلام آباد آنا ہوتا شام کو انکل نسیم بیگ کے  ہاں ضرور تشریف لاتے ۔ مجید نظامی صاحب کی اجازت  سے مجھے نوائے وقت میں کالم لکھنے کا موقع ملا   ۔ پھر وہ دن اور آج کا دن نوائے وقت کا حصہ بن چکا   ہوں ۔محترم مجید نظامی سچے کھرے انسان تھے اور عوام کے دلوں پر راج کرنے والے  پاکستان کے نظریاتی سپہ سلار تھے۔کالا باغ ڈیم کے حا می تھے۔ مجید نظامی صاحب کی بڑی خوبصورت یہ تھی کہ ہر ایک سے عزت سے پیش آتے ۔ ایوبی دور میں کراچی میں مدیران جرائد کے ساتھ ملاقات میں کہا آپ لوگ اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھیں آپ کو شرم آنی چائیے ۔ اس کے جواب میں  مجید نظامی صاحب نے  جنرل صاحب سے کہا  میں اپنے گریبان  میں منہ ڈالتا ہوں تو میرا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے۔۔ مجید نظامی  صاحب نے ہمیشہ  ہر جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق بلند کیا ایک  پینل انٹرویو میں جنرل  ضیاکے پاس  آپ بھی تھے ۔ انٹرویو  کے دوران آپ خاموش رہے ۔ جنرل ضیا نے کہا آپ بھی سوال پوچھیں ۔ نظامی  صاحب  نے برجستہ پنجابی میں پوچھا ساڈی  جان تساں کدو چھڈو گے ۔یعنی آپ ہماری جان کب چھوڑیں گے ۔1998 میں میاں نواز شریف کی حکومت تھی ۔  بھارت نے ایٹمی دھماکے کئے جس پر میاں صاحب نے مدیران جرائد سے  مشورہ کیلئے بلایا  کہ مجھے کیا کرنا چاہیے۔ میاں نواز شریف نے بطور وزیر اعظم آپ سے پوچھا آپ کیا کہتے ہیں ۔ مجید نظامی  صاحب اٹھے ایک ہاتھ جیب میں اور دوسرا ہاتھ  لہرا کر کہا میاں صاحب اگر آپ نے دھماکے نہ کئے تو قوم آپ کا دھماکہ کر دے گی۔ میاں نواز شریف نے پھر اس پر عمل کرتے ہوئے دھماکے کئے۔ راولپنڈی کے نجی  ہوٹل میں مجید نظامی ٹرسٹ کے حوالے سے پروگرام کیا گیا جس کی صدارت محترم مجید نظامی نے کی۔ اس تقریب میں مجھے محترم مجید نظامی کے ساتھ بیٹھنیکا موقع ملا ۔وہاں آپ نے راقم کو  بتایا تھا کہ اگر میں صحافت میں  نہ ہوتا تو وکالت کرتا ۔کہا جو کام بھی کریں محنت  اور دل سے کریں  ۔کہاآپ اپنے شعبہ کو عزت دیں گے  تو شعبہ آپ کو عزت دے گا  مجھے آج بھی آپ کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات  یاد ہیں  ۔ دعا ہے مجید نظامی کو اﷲ پاک جنت میں اعلیٰ جگہ دے ۔آمین       

ای پیپر دی نیشن