آبروے صحافت مجید نظامی مرحوم

محمد شعیب مرزا
قائداعظمؒ کی ہدایت پر حمید نظامی نے 23 مارچ 1940ء کو پندرہ روزہ ’’نوائے وقت‘‘ کا اجراء کیا۔ کچھ عرصہ بعد ہی اسے ہفت روزہ کر دیا گیا۔ قرارداد پاکستان کی منظوری اور ’’نوائے وقت‘‘ کا اجراء تحریک پاکستان میں تاریخی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس لئے کہ ’’نوائے وقت‘‘ کے ذریعے مسلم لیگ کا پیغام گھر گھر پہنچا اور ہندو پریس کو اس کے ذریعے  فوری، مدلل اور مؤثر جواب دیا گیا۔ ’’نوائے وقت‘‘ واحد اخبار تھا جس نے سکندر جناح پیکٹ کی تشریح اور وضاحت کرتے ہوئے ایک مدلل مضمون شائع کر کے قائداعظم کے مؤقف کی تائید کی اوراس مضمون کی 25 ہزار کاپیاں کتابی صورت میں شائع کر کے تقسیم کروائی گئیں۔
’’نوائے وقت‘‘ کے صفحات تحریک پاکستان کی مکمل تاریخ کانقش ہیں۔ حمید نظامی اور مجید نظامی نے اپنی ساری صحافت اور زندگی قائداعظم کے اقوال اور فرمودات کے مطابق گزاری۔ مسلم لیگ کی جدوجہد میں تیزی آنے کے بعد قائداعظمؒ نے حمید نظامی کو بلا کر کہا کہ مسلم لیگ کی ترجمانی کے لئے اب ایک روزنامہ اخبار کی ضرورت ہے اس لیے ’’نوائے وقت‘‘ کو روزنامہ کر دیا جائے۔ لہٰذا انہوں نے اس حکم کی فوری تعمیل کرتے ہوئے 22 جولائی 1944ء کو ’’نوائے وقت‘‘ کو روزنامہ کر دیا۔ 1945ء میں مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے سلسلے میں بھی ’’نوائے وقت‘‘ نے اہم کردار ا دا کیا اور مسلم لیگ کے امیدواروں کی کامیابی کے لئے مہم چلائی ۔ ’’نوائے وقت‘‘ نے قائداعظمؒ مسلم لیگ اور دو قومی نظریے کی بے باک ترجمانی بھی کی اور مخالف اخباروں کی تحریروں اور پروپیگنڈے کا جواب بھی دیا۔ جوں جوں حصولِ پاکستان کی منزل قریب آ رہی تھی فسادات شروع ہو گئے، ان تمام مشکلات کے باوجود ’’نوائے وقت‘‘ نے اپنا مشن جاری رکھا اور بالآخر 14 اگست 1947ء کو پاکستان ایک آزاد مسلم مملکت کے طور پر دنیا کے نقشے پر سامنے آ گیا۔
قائداعظمؒ کی رحلت کے بعد نو آزاد مملکت میں  استحکام کی کوششیں جاری تھیں ’’نوائے وقت‘‘ نے ہمیشہ اپنے اداریوں کے ذریعے باہمی جھگڑوں کے بجائے پاکستان کی تعمیر و ترقی کے لئے کام کرنے کی تلقین کی۔ملک میں جب گورنر راج نافذ کر دیا گیا’’نوائے وقت‘‘ نے اس موقع پر بھی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انگریز گورنر اور دیگر اہم عہدوں پر موجود انگریز افسروں کو ان کے عہدوں سے ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ آخر 17 ستمبر 1958ء کو فیلڈ مارشل ایوب خان نے ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا۔ جمہوریت کے علم بردار ’’نوائے وقت‘‘ نے مارشل لاء کو ہدفِ تنقید بنایا۔ جولائی 1960ء کو ایوب خان کی حکومت کی طرف سے حمید نظامی کو ملاقات کی دعوت دی گئی اور نوازشوں کی نوید بھی سنائی گئی لیکن حمید نظامی قائداعظمؒ کے سپاہی تھے وہ ان کے فرمودات سے کیسے روگردانی کر سکتے تھے، ایوبی آمریت کے خلاف ڈٹ گئے۔ مارشل لائی جبر کو صبر سے برداشت کرتے ہوئے وہ دل کے عارضے میں مبتلا ہو گئے اور آخر 25 فروری 1962ء کواپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ 
حمید نظامی کی وفات کے بعد مجید نظامی نے ’’نوائے وقت‘‘ کی اشاعت میں ایک دن کا تعطل بھی نہ آنے دیا اور 26 فروری کا اخبار اپنے بھائی کی میت پر رکھ کر گویا ان کو یقین دلایا کہ ان کا مشن جاری رہے گا۔مجید نظامی لندن سے ’’نوائے وقت‘‘ کیلئے ڈائری بھجوایا کرتے تھے۔ صحافت ان کیلئے نئی نہیں تھی۔ وہ جانتے تھے کہ نوائے وقت کی ادارت کا بار اٹھانا آسان نہیں وہ بھی ایسے وقت میں جب مارشل لاء کا دور ہو لہٰذا وہ بھی اس محاذ پر ڈٹ گئے۔ 2 جنوری 1965ء کے عام انتخابات میں ایوب خان اور مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح مدِمقابل تھے۔ ایوب خان نے انتخابات میں دھاندلی کے لئے تمام سرکاری مشینری استعمال کی۔ ’’نوائے وقت‘‘ نے تمام تر دباؤ کے باوجود مادر ملت کی حمایت کی لیک دھاندلی سے مادر ملت کو ہروا دیا گیا۔ مجید نظامی ہمیشہ جمہوریت کے حامی رہے۔ وہ اور ’’نوائے وقت‘‘ ہمیشہ نظریہ پاکستان  اس کی جغرافیائی و نظریاتی سرحدوںکی حفاظت کیلئے اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ محترمہ فاطمہ جناحؒ کو مادر ملت کا خطاب بھی مجید نظامی نے ہی دیا۔ وہ جہوریت کو ہی پاکستان کے مسائل کا حل سمجھتے تھے اور آمریت کو ملک کے لئے نقصان دہ قرار دیتے تھے اس لیے وہ ہر آمر کے سامنے  کلمہ حق کہنے کی پالیسی پر ڈٹے رہے جس کے کئی عینی شاہد بھی موجود ہیں۔ 
… حق گوئی و بے باکی:۔
میاں نوازشریف کی وزارت عظمیٰ کے دورمیں بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی بس پر واہگہ کے راستے پاکستان آئے۔ ان دنوں مجید نظامی ایوان اقبال اتھارٹی کے چیئرمین تھے۔ انہیں علم ہوا کہ نوازشریف بھارتی وزیراعظم کو ایوان اقبال میں استقبالیہ دینا چاہتے ہیں تو انہوں نے پہلے تو نوازشریف کو فون کیا وہ مصروف تھے تو مجید نظامی نے شہبازشریف کو فون کر کے کہا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ نوازشریف واجپائی کو ایوان اقبال لانا چاہتے ہیں اگر انہیں یہاں لایا گیا تو میں اتھارٹی کے چیئرمین شپ سے فوراً استعفیٰ دے دوں گا۔ پندرہ منٹ بعد ہی شہبازشریف کا فون آ گیا کہ واجپائی کو ایوان اقبال لانے کا فیصلہ منسوخ کر دیا گیا ہے۔ ایک مرتبہ صدر ضیاء الحق نے مجید نظامی کو اپنے ساتھ دورہ بھارت میں ساتھ چلنے کی پیشکش کی تو جناب مجید نظامی نے کہا کہ اگر آپ نے ٹینک پر سوار ہو کر جانا ہے تو میں آپ کے ساتھ چلنے کے لئے تیار ہوں ورنہ نہیں۔ کشمیر کے کاز کو زندہ رکھنے میں ’’نوائے وقت‘‘ نے ہمیشہ اپنا کردار ادا کیا ہے۔ کشمیر پر ایک موقف پر ڈٹے رہنا کشمیریوں پر ایک بڑا احسان ہے۔
٭… ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایٹمی دھماکے اور نوائے وقت
پاکستان کو پہلا ایٹمی ملک بنانے میں جہاں ایٹمی سائنسدانوں اور افواج پاکستان نے اہم کردار ا دا کیا وہاں مجید نظامی اور ’’نوائے وقت‘‘ نے بھی قابل فخر کردار ادا کیا۔ غوری اوّل اور شاہین اوّل میزائلوں کے اوّلین تجربات کی خبریں بھی سب سے پہلے ’’نوائے وقت‘‘ نے دیں۔ 4 فروری 1984ء کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا پہلا انٹرویو بھی ’’نوائے وقت‘‘ میں شائع ہوا۔ بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد مئی 1998ء میں جب ہر طرف سے دباؤ کے باعث وزیراعظم نوازشریف ایٹمی دھماکے کرنے سے ہچکچا رہے تھے تو مجید نظامی نے انہیں کہا کہ: ’’میاں صاحب! آپ ایٹمی دھماکہ کر دیں ورنہ قوم آپ کا دھماکہ کر دے گی۔‘‘ اس طرح ایٹمی دھماکے کرنے کی راہ ہموار ہوئی۔ 

٭… نوائے وقت ایک پودے سے گلشن:۔ 
جناب مجید نظامی نے ’’نوائے وقت‘‘ کی ذمہ داری سنبھال کر نہ صرف اس کو کامیابی سے چلایا بلکہ اس کی ترقی میں کئی ابواب کا اضافہ کیا اور ایک پودے کو پورا گلشن بنا دیا۔ ’’نوائے وقت‘‘ 8 جولائی 1955ء کو راولپنڈی، 17 جولائی 1959ء کو ملتان ایڈیشن شروع ہوا ۔7 اکتوبر 1979ء کو کراچی سے ’’نوائے وقت‘‘ کی ا شاعت کا آغاز ہو اسی طرح یکم اکتوبر 1986ء کو لاہور سے انگریزی اخبار دی نیشن کا آغاز کیا گیا۔ 2 مئی 1991ء کو اسلام آباد اور یکم مئی 2000ء کو کراچی سے بھی دی نیشن کی اشاعت شروع کی۔
نظامی صاحب چاہتے تھے کہ معاشرے کے تمام طبقات کی رہنمائی ہو اور نظریہ پاکستان کا پیغام سب تک پہنچے  اس کے لئے اکتوبر 1990ء سے ہفتہ وار فیملی میگزین، ستمبر 1990ء سے ماہنامہ ’’پھول‘‘ اور 10 ستمبر 1997ء کو ہفت روزہ ’’ندائے ملت‘‘ جاری کیے۔ اس کے بعد وقت چینل شروع کیا۔ یوں انہوں نے کامیابیوں کے کئی سنگ عبور کیے ۔ آپ کچھ عرصہ علیل رہنے کے بعد 26 جولائی کی علی الصبح لیلۃ القدر کے آخری پہر رمضان المبارک میں 86 برس کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ انکی اکلوتی بیٹی رمیزہ مجید نظامی برطانیہ سے تعلیم حاصل کر کے پاکستان آچکی تھیں۔ مجید نظامی نے انہیں ادارے کی مختلف ذمہ داری سونپ دی،آج محترمہ رمیزہ نظامی نے بطور مینجنگ ڈائریکٹر اور چیف ایڈیٹر نوائے وقت گروپ ادارے کی اُسی پالیسی پر گامزن ہیں جس کی قائداعظم محمد علی جناحؒ نے تلقین کی تھی اور جس پر حمید نظامی اور مجید نظامی ساری زندگی عمل پیرا رہے۔انہوں نے خود کو بہترین صحافی ہی نہیں عمدہ منتظم بھی ثابت کیا ہے۔ آج بھی مسئلہ کشمیر ہو یا مسئلہ فلسطین، مسلم اُمہ کا کوئی مسئلہ ہو یا نظریہ پاکستان کا فروغ، پاکستان کی جغرافیائی یا نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کا معاملہ ہو ’’نوائے وقت‘‘ گروپ محترمہ رمیزہ مجید نظامی کی قیادت میں اپنی اساسی اور اصولی پالیسی پر عمل پیرا ترقی اورکامیابیوں کی منزلیں طے کر رہا ۔

ای پیپر دی نیشن