مجید نظامی: صحافتی دنیا کا ایک بڑا نام

Jul 26, 2023

سعد اختر

9سال پہلے رحلت پائی۔ اس طرح صحافتی تاریخ کا ایک سنہرا باب بند ہوا۔ نوائے وقت اور مجید نظامی ہمیشہ لازم و ملزوم رہے۔ ان کے صحافتی اور سیاست میں ا ن کے انفرادی کردار کو کبھی نہیں بھلایا جا سکے گا۔ 44ء کا سن تھا جب ان کے بڑے بھائی حمید نظامی مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کی قیادت کر رہے تھے۔ اسی زمانہ میں حمید نظامی نے ’نوائے وقت‘ کی داغ بیل ڈالی۔ یہ ہفتہ وار شائع ہوتا تھا۔ جو بعد میں روزنامہ بنا۔ اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان کی آزادی کی تحریک میں قائداعظم کے علاوہ ’نوائے وقت‘ نے بھی ہراول دستے کا رول ادا کیا توکچھ غلط نہیں ہو گا۔ 60ء کی دہائی چل رہی تھی جب اس دہائی کے دوسرے سال 1962ء میں حمید نظامی علیل ہوئے۔ علالت بڑھی تو انھوں نے مجید نظامی کو، جو اس وقت لندن میں تھے، پیغام بھیجا کہ وہ فوری ان کے پاس پہنچیں۔ اس وقت تک ’نوائے وقت‘ ہر خاص و عام سے اپنا لوہا منوا چکا تھا۔ مجید نظامی لاہور پہنچے تو چند گھنٹوں بعد حمید نظامی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ یوں مجید نظامی کو ’نوائے وقت‘ کی ذمہ داریاں سنبھالنی پڑیں۔ انھوں نے نا صرف ’نوائے وقت‘ کے معیار اور شعار کو قائم رکھا بلکہ اس کے پڑھنے والوں میں اس کی قدرومنزلت میں بھی اضافہ کیا۔
مجید نظامی نے ایک ہفت روزہ اخبار ’ندائے ملت‘ کی بھی بنیاد رکھی۔ وہ نظریہ پاکستان پر یقین رکھنے والے شخص تھے۔ نوائے وقت اور اِسی ادارے کے انگریزی اخبار ڈیلی ’نیشن‘ میں بھی نظریہ پاکستان کا تسلسل کے ساتھ پرچار کرتے رہے۔ اگرچہ انھوں نے اپنے ادارے کے بینر تلے انگریزی اخبار نکالا لیکن وہ اردو کے زبردست حامی تھے۔ برصغیر پاک و ہند ایک قدیم خطہ ہے۔ جہاں مسلمانوں نے صدیوں حکومت کی لیکن جب یہاں انگریز کا دورِ حکومت تھا تو ایک وقت ایسا بھی آیا جب اپنے حقوق کے حصول کے لیے مسلمانوں نے اپنی جدوجہد کو لازم سمجھا۔ ابتدا سرسید احمد خان سے ہوئی ۔ مولانا شوکت علی اور مولانا محمد علی کا کردار بھی اس حوالے سے بیش بہا تھا۔ پاکستان کا حقیقی تصور علامہ اقبال کا تھا جس کی تکمیل قائداعظم نے کی۔ تاہم آزادی کی اس جدوجہد اور تحریک میں ’نوائے وقت‘ کے کردار کو بھی نہیں بھلایا جا سکتا۔
پاکستان کے نظریے کے تحت مجید نظامی جہاد کرتے نظر آئے۔ نظریہ پاکستان کے تحفظ کے لیے بڑے بڑوں سے ٹکر لے لیتے تھے۔ ’نوائے وقت‘ کی پیشانی پر لکھا ہے ’بہترین جہاد جابر سلطان کے آگے کلمۂ حق کہنا ہے‘ ، اور مجید نظامی نے ایسا کر دکھایا۔ وہ کسی حکمران سے نہیں ڈرتے تھے۔ جو کہنا ہوتا تھا ببانگ دہل کہہ دیتے تھے۔ مجید نظامی اپنی صحت کا بھی بہت خیال رکھتے تھے۔ صبح کے وقت جناح باغ کی سیر ان کا روزانہ کا معمول تھا۔ جب کسی سے بات ہوتی تو برملا کہتے کہ ’نوائے وقت‘ ایک نظریے کا نام ہے وہ پاکستان کو سیاسی، معاشی اور سماجی اعتبار سے بہت اونچے مقام پر دیکھنے کے خواہشمند رہتے اور ملکی حالات پر اکثر مضطرب دکھائی دیتے۔
ایوب خان فیلڈ مارشل کی حیثیت سے آئے تو مجید نظامی ان کے شدید مخالف بن گئے۔ وہ جمہوریت کے حامی تھے۔ قائداعظم کے فرمودات کے مطابق ملک میں مضبوط پارلیمانی جمہوری نظام چاہتے تھے۔ اس لیے انھوں نے کبھی کسی فوجی آمر کی حمایت نہیں کی۔ ان کے سامنے ہمیشہ سیسہ پلائی دیوار بنے رہے۔ایک بار بھٹو سے مجید نظامی کی ملاقات ہوئی تو انھوں نے صاف طور پر کہا کہ ’نوائے وقت‘ ایک نظریاتی اخبار ہے۔ وہ بھٹو صاحب کے نظریات کی حمایت نہیں کر سکتا۔ اس پر بھٹو صاحب خفا بھی ہوئے۔ ’نوائے وقت‘ کی حمایت حاصل کرنے کے لیے انھوں نے مسعود محمود کو مجید نظامی کے پاس بھیجا لیکن نظامی صاحب نے انھیں بھی صاف اور کھرا جواب دے دیا۔ مسعود محمود مایوس واپس اسلام آباد لوٹ گئے۔ مجید نظامی بھٹو صاحب کے سیاسی، معاشی اور سماجی نظام کے نظریے کو نظریہ پاکستان کے خلاف سمجھتے تھے۔ حاکمِ وقت ہونے کے باوجود انھوں نے بھٹو صاحب کی حمایت سے انکار کر دیا۔
نواز شریف جب پہلی بار وزیراعظم پاکستان بنے تو مجید نظامی کی ان کے والد میاں محمد شریف سے ملاقات ہوئی۔ نظامی صاحب نے میاں شریف کو مشورہ دیا کہ جب تک نواز شریف وزیراعظم ہیں وہ کوئی نیا کاروبار شروع نہ کریں۔ اس طرح ان کو سیاسی مخالفین کی تنقیدکا نشانہ نہیں بننا پڑے گا۔ یہ اچھی تجویز تھی جس پر میاں محمد شریف نے عمل کرنے کی پوری کوشش کی۔ ایک بار ملکی معیشت کے حوالے سے ’نوائے وقت‘ میں کسی کا مضمون شائع ہوا جو میاں محمد شریف نے بھی پڑھا۔ اس مضمون کی کاپی میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کو بھی بھجوائی۔مجید نظامی اخبار میں چھپنے والے مضامین اور کالموں پر قریبی ساتھیوں سے ضرور رائے لیا کرتے تھے۔ اگر کوئی اچھا مشورہ ہوتا تو عمل کرتے، اپنے ادارتی سٹاف کو بھی عمل کی تلقین کرتے۔وہ مضمون اور کالم نگاروں کو معاوضہ دینے کے حق میں ہوتے تھے۔ ان کی کوشش ہوتی تھی جو اچھا لکھنے والے ہیں انھیں ان کی قابلیت اور اہلیت کے مطابق معاوضہ ادا کیا جائے۔
مجید نظامی مرحوم کی مضامین اور کالموں پر گہری نظر ہوتی تھی۔ وہ سب مضامین اور کالموں کو خود پڑھتے، معیاری ہونے کی صورت میں چھپنے کے لیے ایڈیٹوریل انچارج کے حوالے کر دیتے۔ مجید نظامی کا یہ سب سے بڑا کارنامہ ہے کہ صحافت کی دنیا میں انھوں نے ’نوائے وقت‘ کے ادارے کو قومی ٹرسٹ بنا دیا۔ مجید نظامی صحافتی دنیا کے ایسے معمار تھے جنھیں مدتوں نہیں بھلایا جا سکے گا۔ جب تک اردو صحافت زندہ ہے، مجید نظامی کا نام بھی زندہ رہے گا۔ اب ’نوائے وقت‘ کا ادارہ مجید نظامی کی بیٹی رمیزہ نظامی چلا رہی ہیں۔ 

مزیدخبریں