فضل حسین اعوان
موت زندگی کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ بیماریاں انسانی زندگی میں اٹل حقیقت ہیں۔ ایسی کوئی بیماری نہیں جس کا علاج قدرت کاملہ میں نہیں رکھا مگر انسان ایسے علاج تک کب پہنچتا ہے۔ یہ اس کی اپنی سوچ محنت اور مہارت پر منحصر ہے۔ پاکستان میں جہاں امارت ہے تو انتہائی زیادہ ہے اور کہیں ایسی پسماندگی اور غربت ہے کہ وہ کسی پیمانے میں سما نہیں سکتی۔ کچھ لوگ معمولی بیماری کے علاج کے لیے دنیا کے بہترین ہسپتالوں میں چلے جاتے ہیں جبکہ پسماندہ اور پسے ہوئے طبقات جو دو وقت کی روٹی کو بھی عاجز ہوتے ہوئے وہ کیسے اور کہاں سے علاج کروائیں؟
کینسر ایک مہلک اور موذی مرض ہے۔اس کے علاج پر کسی بھی بیماری سے زیادہ اخراجات آتے ہیں جو عام آدمی تو کیا کئی امیر بھی افورڈ نہیں کر سکتے۔ ایسے مریضوں کی دستگیری شوکت خانم ہسپتال کی طرف سے کی جاتی ہے۔سب سے پہلے لاہور میں شوکت خانم کینسر ہسپتال تعمیر کیا گیاجہاں شروع سے آج تک 75 فیصد بے وسیلہ مریضوں کوکینسر کا معیاری علاج بلا معاوضہ فراہم کیا جا رہا ہے جبکہ متمول افراد اپنے علاج کے اخراجات خود برداشت کرتے ہیں۔عمران خان نے اس ہسپتال کا نام اپنی والدہ کے نام پر رکھا۔ وہ بھی کینسر کی مریضہ تھیں۔ ان کا علاج کرانے کے لیے عمران خان لندن میں گئے تھے۔کینسر کے کے علاج کے لیے جتنے اخراجات آتے ہیں اور جن مشکلات کا سامنا مریض اور اس کے لواحقین کو کرنا پڑتا ہے۔ عمران خان کو اس کا اندازہ ہوا تو انہوں نے پاکستان میں کینسر ہسپتال بنانے کے بارے میں سوچا۔دوستوں کی طرف سے کہا گیا کہ پرائیویٹ سیکٹر میں کینسر ہسپتال علاج پر آنے والے اخراجات کی بناءپر نہیں چل سکتا۔بہرحال ان کی طرف سے عزم و ارادہ کیا گیا،پاکستانی عوام نے ان سے تعاون کیا تولاہور میں یہ ہسپتال تعمیر ہوا جو رواں سال کینسر کے علاج کی بین الاقوامی معیار کی خدمات فراہم کرنے کے تیس سال مکمل کر لے گا۔
لاہور کے قریبی علاقوں سے تعلق رکھنے والے مریضوں کے لیے ہسپتال تک پہنچنا آسان تھا مگر دور دراز خیبر پختون خواہ، بلوچستان اور کراچی کے مریضوں کے لیے لاہور آنا کتنا مشکل تھا اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے کلچر میں کئی اقدار مشترک ہیں۔بارڈر کے آر پار لوگوں کی عزیز داریاں اور رشتہ داریاں ہیں چنانچہ خیبر پختونخواہ کے ساتھ افغانستان سے بھی کینسر کے مریض علاج کے لیے شوکت خانم ہسپتال لاہور کا رخ کرتے تھے۔ مریضوں کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے سال 2015 میں پشاور میں دوسرا شوکت خانم کینسر ہسپتال بنایا گیا۔ جہاں خیبر پختونخواہ اور افغانستان سے آنے والے کینسر کے مریضوں کو علاج کی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔پشاور کے بعد تیسرے شوکت خانم ہسپتال کی بنیاد کراچی میں رکھی گئی جس کا تعمیراتی کام اس وقت زور و شور سے جاری ہے۔ لاہور اور پشاور کے ہسپتال اپنی کپیسٹی کے مطابق چل رہے ہیں جبکہ کراچی کا ہسپتال تعمیر کے مراحل سے گزرتے ہوئے تکمیل کی طرف گامزن ہے۔
وطن عزیز پاکستان ایک مشکل معاشی دور سے گزر رہا ہے۔ زندگی گزارنے کے بڑھتے ہوئے اخراجات اور صحت کی بنیادی سہولیات تک محدود رسائی کے ساتھ ساتھ، بنیادی ضروریات زندگی کا حصول بھی ایک عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو رہا ہے۔ ایسی معاشی صورتحال میں کینسر جیسی موذی اور مہنگی بیماری سے لڑنا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں سالانہ تقریباً 180,000 نئے کینسر کے کیسز سامنے آتے ہیں، مریضوں کی اتنی بڑی تعدادشوکت خانم ہسپتال کراچی کی جلد از جلد تکمیل کی اہمیت اور ضرورت کو اور بھی بڑھا دیتی ہے۔ پاکستان میں اگرچہ کئی دیگر ہسپتال بھی کینسر کا علاج فراہم کر رہے ہیں،تا ہم کینسر کے معیاری اور مکمل علاج کے لیے شوکت خانم ہسپتال جیسے جامع اور فلاحی ہسپتال کی اہمیت نا گزیر ہے۔ یہ ہسپتال کینسر کے علاج، تشخیص اورتحقیق میں ایک ٹیم کے ماحول کو فروغ دیتا ہے جہاں ماہر آنکالوجسٹ، سرجن، ریڈیولوجسٹ اور دیگر ماہرین ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہوئے، مریض کو بہترین علاج ایک ہی چھت تلے فراہم کرتے ہیں۔ مزید برآں، کینسر کے علاج کی پیچیدگیوں سے بہتر طریقے سے نبرد آزما ہو نے کے لئے، یہ ہسپتال جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہے۔
پاکستان کے بڑے شہروں میں اگر چہ کسی حد تک صحت کی معیاری سہولیات دستیاب ہو جاتی ہیں تاہم اگر بات کی جائے اندرون سندھ اور بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں رہنے والے مریضوں کی، تو ان میں اکثریت صحت کی بنیادی سہولیات اور معیاری علاج تک رسائی سے محروم ہیں اور اس کے حصول لیے دور دراز کا سفر اس کے اخراجات اور دیگرمشکلات ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔شوکت خانم کراچی ہسپتال کی عمارت تقریبا تیار ہے۔یہ ہسپتال لاہور کے ہسپتال سے نہ صرف رقبے بلکہ طبی سہولیات کے اعتبار سے بھی دوگنابڑا ہے۔ یہ ہسپتال ملک میں کینسر کے علاج کی مجموعی قوت میں اضافے کا باعث بھی بنے گا۔ اس کے علاوہ ٹریننگ اور ریسرچ کے ذریعے سندھ اور بلوچستان کے شعبہ صحت کے کارکنوں کے لیے ایک اہم مرکز کی حیثیت اختیار کر لے گا۔ کراچی میں زیر تعمیر پاکستان کے سب سے بڑے اور جامع کینسر ہسپتال کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد کراچی سمیت پور ے سندھ اور جنوبی بلوچستان کے لوگوں کو کینسر کے علاج کی جدید ترین سہولیات ایک ہی چھت تلے دستیاب ہو سکیں گی۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ لاہور پشاور کی طرح کراچی میں بھی 75فیصد سے زائد مریضوں کو علاج کی یہ تمام سہولیات بلا معاوضہ فراہم کی جائیں گی۔ کراچی ہسپتال کو مکمل کرنے کے لیے اس وقت مزید بیس ارب روپے کی ضرورت ہے۔عطیات فلاحی اداروں کی جان ہوتے ہیں اور یہ ہسپتال کو اس قابل بناتے ہیں کہ وہ بڑی تعداد میں مریضوں کو اعلیٰ معیار کاعلاج فراہم کر سکیں۔ یہ عطیات ہسپتال کو جدید آلات اور ٹیکنالوجی کے حصول، ماہرین کی تربیت اور ان کی کارگردگی میں بہتری لانے میں مددگار ہوتے ہیں۔ ہر عطیہ، چاہے وہ بڑا ہو یا چھوٹا، پاکستان میں کینسر کے خلاف جنگ لڑنے میں مدد گار ثابت ہو گا۔
ہسپتال کی انتظامیہ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ آئیے یقینی بنائیں کہ مالی رکاوٹیں اور مشکلات زندگی بچانے کی کوششوں کے راستے میں حائل نہ ہوں اورشوکت خانم ہسپتال کراچی کی تعمیر میں حصہ ڈال کر، کینسر کے خلاف جنگ میں شراکت دار بن کر مستحق مریضوں اور خاندانوں کے لیے ایک صحت مند مستقبل کی نئی امید جگائیں۔