پاکستانی معاشرہ اور مذہبی بدعنوانی

Jul 26, 2024

ڈاکٹر جمیل اختر  …تفہیم مکالمہ

تحریر: ڈاکٹر جمیل اختر

مذہبی بدعنوانی دراصل ذاتی، سیاسی یا مالی فائدے کے لیے مذہبی عقائد، طرزِ عمل اور اداروں کا غلط استعمال اور استحصال ہے۔ یہ رجحان مذہبی تعلیمات کے حقیقی جوہر کو مسخ کرتا ہے، مذہبی رہنماو¿ں کی اخلاقی اتھارٹی کو مجروح کرتا ہے اور پیروکاروں کے اعتماد کو ختم کرتا ہے۔ پاکستان سمیت بہت سے معاشروں میں، مذہبی بدعنوانی مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتی ہے، جس میں مذہبی رہنماو¿ں کے مالی استحصال میں ملوث ہونے سے لے کر مذہبی قوانین کے غلط استعمال اور فرقہ وارانہ تشدد پھیلانے تک سب شامل ہے۔ پاکستان میں مذہبی بدعنوانی ایک اہم چیلنج ہے جس سے نہ صرف مذہبی اداروں کی سالمیت متاثر ہوتی ہے بلکہ وسیع تر سماجی تانے بانے بھی متاثر ہوتے ہیں اور مایوسی پھیلتی ہے۔
پاکستانی معاشرے میں مذہبی بدعنوانی کے چند مظاہر اس طرح روپذیر ہوتے ہیں کہ زکوٰ? اور صدقات جیسے مذہبی مقاصد کے لیے جمع کیے گئے فنڈز کو بعض اوقات خیراتی مقاصد یا کمیونٹی کی فلاح و بہبود کے بجائے ذاتی افزودگی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ کچھ مذہبی ادارے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے غیر قانونی طور پر زمینوں پر قبضہ کر لیتے ہیں۔ یہ عمل نہ صرف جائیداد کے حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ مقامی کمیونٹیز کے ساتھ تنازعات پیدا کرنے اور قانون کی حکمرانی کو نقصان پہنچانے کا سبب بھی ہے۔ مذہبی تقریبات، جیسے کہ حج یا مقامی مذہبی تہواروں کی کمرشلائزیشن میں اکثر شرکاءسے خدمات کے عوض زیادہ معاوضہ لینا اور منافع کے لیے ان کی عقیدت کا استحصال کیا جاتا ہے۔ مدارس میں بعض اوقات انتہا پسندانہ نظریات یا فرقہ وارانہ تعصبات کو فروغ دیا جاتا ہے۔ مذہبی تشریحات کے جمود کو چیلنج کرنے والی معتدل آوازوں کو دبا کر فکری تنوع اور تنقیدی گفتگو کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ غالب مذہبی گروہ اکثر مذہبی بیانیے پر اجارہ داری قائم کرتے ہیں، اقلیتی تشریحات اور طرز عمل کو پسِ پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ بعض اوقات پروپیگنڈہ پھیلانے، عوام کو غلط معلومات دینے، یا مخصوص گروہوں کے خلاف نفرت کو ہوا دینے کے لیے میڈیا اور معلوماتی چینلز کا استعمال کیا جاتا ہے۔ حقیقی مذہبی رہنمائی کے بجائے سیاسی یا ذاتی ایجنڈے کو پورا کرنے کے لیے مذہبی رہنماﺅں کی طرف سے جاری کردہ فتاویٰ جات تشدد کو بھڑکاتے ہیں، ظلم و ستم کو جائز قرار دیتے ہیں اور غیر منصفانہ طور پر افراد یا دیگر گروہوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ مذہبی اداروں میں اقتدار کے عہدے بعض اوقات اہلیت کی بجائے خاندانی تعلقات یا وفاداری کی بنیاد پر دیئے جاتے ہیں۔ خواتین اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں بعض اوقات مذہبی رہنما اپنے پیروکاروں کو بچانے کے لیے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہیں۔ مذہبی شخصیات اپنے پلیٹ فارم کو دوسرے مذہبی یا نسلی گروہوں کے خلاف نفرت انگیز تقریر پھیلانے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
مذہبی بدعنوانی کے نقصانات میں سے چند ایک نقصانات انتہائی خطرناک ہیں۔ جب عوام مذہبی شخصیات کو غیر اخلاقی کاموں میں ملوث یا ذاتی فائدے کے لیے مذہب کا غلط استعمال کرتے دیکھتی ہے تو ان کا مذہبی اداروں اور رہنماو¿ں پر اعتماد کم یا ختم ہونے لگتا ہے۔ مذہبی انتہا پسند گروہ اپنے غلط تصرفات کا جواز پیش کرنے کے لیے مذہبی تعلیمات کو مسخ کرتے ہیں۔ تشدد، عدم برداشت اور اپنے سیاسی مقاصد کو جائز بنانے کے لیے مذہبی متون کی من مانی تشریح کرتے ہیں۔ یہ غلط تشریح ان کے پیروکاروں میں مذہب کے بارے میں غلط فہمی کا باعث بنتی ہے جس سے سماجی ہم آہنگی اور استحکام کو نقصان پہنچتا ہے۔ مذہبی انتہا پسند سخت دھمکیوں کا استعمال کر کے اعتدال پسند آوازوں کو خاموش کراتے ہیں اور اپنی شدت پسندانہ مذہبی تشریح کا نفاذ کرتے ہیں جس سے فکری اور مذہبی آزادی کو ٹھیس پہنچتی ہے اور عدم برداشت کا مذہبی منظر نامہ جنم لیتا ہے۔ مذہبی بدعنوانی کی وجہ سے عدمِ برداشت کا رویہ پیدا ہوتا ہے جو کہ سماجی تنزلی کا باعث بنتا ہے۔ برادریاں فرقہ وارانہ خطوط پر منقسم ہو جاتی ہیں، سماجی ہم آہنگی کمزور پڑ جاتی ہے اور اتحاد مفقود ہونے لگتا ہے۔ سیاست دان سیاسی فائدے کے لیے مساوات اور انصاف کے اصولوں کی بجائے مذہبی پاپولزم کی بنیاد پر پالیسیاں اور قوانین بنانے میں معاون ہوتے ہیں تو اس سے جمہوری طرز حکمرانی کو نقصان پہنچتا ہے۔ توہین رسالت کے قوانین کے غلط استعمال اور مذہبی اقلیتوں پر ہونے والے ظلم و ستم کی وجہ سے خوف اور جبر کا ماحول پیدا ہوتا ہے، نتیجتاً اقلیتیں آزادانہ طور پر اپنے عقائد کا اظہار کرنے یا ناانصافیوں کو چیلنج کرنے سے ڈرتی ہیں۔
مذہبی بدعنوانی کے معاشرے پر اس طرح کے اثرات مرتب ہوتے ہیں کہ حقیقی مذہبی اقدار جیسے کہ امن، رواداری اور ہمدردی کا خاتمہ ہوتا ہے، خوف اور عدم تحفظ کا ماحول پیدا ہوتا ہے، شدت پسندی اور عدمِ برداشت کو ہوا ملتی ہے، مذہبی اقلیتوں کو اکثر امتیازی سلوک اور ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑتا ہے، فرقہ واریت بڑھنے لگتی ہے، مختلف مذہبی اور فرقہ وارانہ گروہوں کے درمیان اکثر جھڑپیں چلتی رہتی ہیں، تنقیدی سوچ اور فکری تحقیقات کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے، بدعنوانی، اقربا پروری اور اختیارات کے غلط استعمال کو فروغ ملتا ہے، قومی یکجہتی اور سماجی ہم آہنگی کمزور ہو جاتی ہے، سیاسی عدم استحکام کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جمہوری اداروں کی مضبوطی اور سالمیت کو نقصان پہنچتا ہے، بین الاقوامی سطح پر سفارتی اور اقتصادی تعلقات متاثر ہوتے ہیں۔ 
یاد رہے کہ مذہبی بدعنوانی نہ صرف مذہبی اداروں کی سالمیت کو نقصان پہنچاتی ہے بلکہ سماجی عدمِ مساوات، معاشی مشکلات اور سیاسی عدم استحکام کا باعث بھی بنتی ہے۔ یہ معاشرتی اقدار کو مجروح کرتی ہے اور سماجی ہم آہنگی میں خلل ڈالتی ہے۔ مذہبی بدعنوانی کے مسئلہ کو حل کرنے کے لیے کثیر جہتی اصلاحات کی ضرورت ہے جس میں مذہبی اداروں کے اندر شفافیت اور جوابدہی کا فروغ، تعلیمی اصلاحات، بین المذاہب مکالمے کا فروغ، انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے کے لیے مضبوط قانونی اقدامات، تمام مذہبی گروہوں کے حقوق کا تحفظ، رواداری اور باہمی احترام کے کلچر کو فروغ دینا شامل ہے۔ اس میں جمہوری طرز حکمرانی کو مضبوط بنانا اور اس بات کو یقینی بنانا بھی شامل ہے کہ قوانین کا غلط استعمال نہ ہو۔ نیز ایک جامع تجزیہ اور جانچ پڑتال کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں مذہبی اتھارٹی کو کس طرح استعمال کیا جاتا ہے! مذہبی تعلیمات کی تشریح اور اطلاق کیسے کیا جاتا ہے! نیز مذہبی ادارے سیاسی اور سماجی ڈھانچے کو کس طرح متاثر کرتے ہیں! ان مسائل کو حل کرکے، پاکستان اپنی مذہبی روایات کی حقیقی روح کو دوبارہ حاصل کرنے، سماجی ہم آہنگی کو فروغ دینے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کر سکتا ہے کہ مذہب استحصال اور تقسیم کے آلے کے بجائے اخلاقی رہنمائی کا ذریعہ بنے۔ مذہبی بدعنوانی کے مظاہر پر قابو پا کر ہم ایک ایسے پاکستان کی تعمیر کی امید کر سکتے ہیں جہاں مذہب لوگوں کو تقسیم کرنے کی بجائے اتحاد کو تقویت بخشے اور پاکستانی معاشرہ مزید جامع اور ہم آہنگ مستقبل کی طرف سفر کرے۔

مزیدخبریں