ڈاکٹر ندا ایلی
آج میری بیٹی کا سکول میں پہلا دن تھا ۔وہ ابھی بہت چھوٹی تھی ۔ مجھے سارا دن بہت پریشانی رہی ۔ پتہ نہیں اس نے لنچ صحیح سے کھایا ہو گا یا نہیں؟ پتہ نہیں اس کی ٹیچر کا مزاج کیسا ہو گا ؟ پتہ نہیں سکول کی آیا اس کو واش روم کیسے لے کے جائے گی ؟ میرے دماغ میں سارا دن یہی سوالات اٹھتے رہے ۔۔ یہ بے چینی شائد اس لئے تھی کہ پہلی مرتبہ اسے خود سے تھوڑی دیر کے لئے دور کیا تھا ۔ آخر سکول سے چھٹی کا ٹائم ہو گیا ۔میں وقت سے پہلے ہی وہاں موجود تھی ۔ ۔۔۔میں نے اسے دور سے دیکھا تو وہ مجھے ہی دیکھ رہی تھی یوں لگا جیسے وقت میرے لئے تھم سا گیا ہو۔ میں اس کا چہرہ پڑھنے اور اس کے دل کا حال جاننے کے لئے بے چین تھی ۔ میں جاننا چاہتی تھی کہ آج سب نے سکول میں اس کے ساتھ کیسا سلوک کیا ۔ لیکن اس سے بھی زیادہ شائد میں اس کو یہ بتانا چاہتی تھی کہ اس دنیا میں اس زندگی میں میں ہمیشہ اس کے ساتھ نہیں رہوں گی ۔ اس کی زندگی میں بہت سے لوگ آئیں گے اس کی طرف ہاتھ بڑھانے والا ہر شخص اس کا دوست نہیں ہو گا ۔ اس کی طرف مسکرا کر دیکھنے والا ہر کردار اس کا خیر خواہ نہیں ہو گا۔ اس کی مدد کا دعوی کرنے والا ہر چہرہ اس سے مخلص نہیں ہوگا ۔میں اسے یہ بتانا چاہتی تھی کہ اسے کس طرح مضبوط بننا ہے اور آگے بڑھنا ہے ۔
اب وہ بالکل میرے سامنے کھڑی تھی ۔ وہ کھلکھلا کر ہنس رہی تھی۔ ۔ لو میں نے ابھی سے اس چھوٹی سی گڑیا سے اتنی مشکل باتیں کرنے کا کیسے سوچ لیا ؟۔ میں نے بڑھ کر اسغے گلے لگا لیا اور دعا کرنے لگی کہ زندگی کے ہر موڑ پر وہ مجھے یوں ہی کھلکھلا کرمسکراتی ہوئی ملے ۔