”زندہ رہیں گے مجید نظامی“

عاشق ِ رسول ، مصّورِ پاکستان ، علاّمہ اقبال نے خالقِ حقیقی سے جا ملنے والوں کے پسماندگان کے لئے کیا خوب کہا تھا کہ ۔۔۔
مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں!
وہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں!
معزز قارئین ! آج (26 جولائی کو) پاکستان میں اور بیرون پاکستان، فرزندان و دخترانِ پاکستان اپنے اپنے انداز میں ”مفسرِ نظریہ پاکستان“ جنابِ مجید نظامی کی دسویں برسی منائیں گے۔ مَیں اپنے کالموں میں بیان کر چکا ہوں کہ ”مَیں نے 1956ءمیں میٹرک پاس کِیا اور پہلی نعت ِرسول مقبول لکھی جو لائل پور (اب فیصل آباد) کے ایک روزنامہ میں شائع ہوئی، پھر 1960ءمیں مسلک صحافت اختیار کِیا، جب مَیں گورنمنٹ کالج سرگودھا میں ”بی۔ اے۔ فائنل“ کا طالبعلم تھا۔ فروری 1964ءمیں جنابِ مجید نظامی نے مجھے سرگودھا میں ”نوائے وقت“ کا نامہ نگار مقرر کِیا۔ پھر مَیں نے 11 جولائی 1973ءکو لاہور میں اپنا روزنامہ ”سیاست“ جاری کِیا تو اسی دَوران ”نوائے وقت“ میں میرا کالم ”سیاست نامہ“ شائع ہونا شروع ہوا۔ پھر جنابِ مجید نظامی کے دَور میں ”نوائے وقت“ میں میری کالم نویسی کے کئی دَور شروع ہوئے اور ان کے بعد ان کی صاحبزادی محترمہ رمیزہ مجید نظامی کے دَور میں بھی۔ 
”82 ویں سالگرہ !“
معزز قارئین! جنابِ مجید نظامی 3 اپریل 1928ءکو پنجاب کے ایک قصبہ سانگلہ ہل میں پیدا ہوئے تھے۔ عام طور پر جنابِ مجید نظامی ”معمارِ نوائے وقت“ کی حیثیت سے اپنے قریبی دوستوں کی فرمائش پر ”چپ چپیتے“ 25,20 احباب کے ساتھ اپنی سالگرہ مناتے تھے۔ 3 اپریل 2010ءکو مَیں بھی آپ کی 82 ویں سالگرہ میں شامل تھا لیکن 3 اپریل 2014ءکو ”ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان“ لاہور میں جنابِ مجید نظامی کے دوستوں کے اصرار پر ”نظریہ پاکستان ٹرسٹ“ اور ”تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ“ کے اشتراک سے آپ کی 86ویں سالگرہ دھوم دھڑکے سے منائی گئی۔ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور مہمان خصوصی تھے۔ چودھری صاحب نے جنابِ مجید نظامی کو صحافت کا ”شہ سوار“ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ”میری دعا ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کے سروں پر ڈاکٹر مجید نظامی کا سایہ سلامت رکھیں۔ اور ہم سب اِنکی (سو سالہ سالگرہ بھی منائیں)۔“ اِس پر حاضرین نے بلند آواز سے ”آمِین!“ کہا۔ پھر مجھے جناب احمد ندیم قاسمی کا یہ شعر یاد آ گیا …
”جِس بھی فنکار کے شَہ کار ہو تم!
اس نے صدیوں تمہیں سوچا ہو گا“
”صحافت کا مہر عالم تاب!“ 
معزز قارئین! مجھے دھوم دھڑکے سے منعقدہ جنابِ مجید نظامی کی سالگرہ میں اپنی نظم پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔ آسکے صرف دو بند ملاحظہ فرمائیں۔
”سجائے بَیٹھے ہیں محفل، خلوص کی احباب!
کِھلے ہیں رنگ برنگے، محبّتوں کے گلاب!
بنایا قادرِ مطلق نے جِس کو عالی جناب!
چمک رہا ہے، صحافت کا مہِر عالم تاب !
خوشا! مجِید نظامی کی برکتیں ہر سو!
ہے فکرِ قائد و اقبال کی نگر نگر خوشبو!
اثر دعا ہے کہ ہو ارضِِ پاک بھی، شاداب !
چمک رہا ہے صحافت کا مہِر عالم تاب!
” شاعرِ نظریہءپاکستان! “
معزز قارئین! قبل ازیں 20 فروری 2014ء کو ”ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان“ لاہور میں 6 ویں سہ روزہ ”نظریہ پاکستان کانفرنس“ کے موقع پر مَیں نے ”نظریہ پاکستان ٹرسٹ“ کے سیکرٹری جنرل سیّد شاہد رشید (اب مرحوم) کی فرمائش پر ملّی ترانہ لکھا تھا جسے نظریاتی سمر سکول کے میوزک ٹیچر جنابِ آصف مجید نے Compose کِیا اور School" Causeway "The۔ کے طلبہ و طالبات نے مل کر گایا تو ہال تالیوں سے گونج اٹھا، اِس پر جنابِ مجید نظامی نے مجھے ”شاعرِ نظریہ پاکستان“ کا خطاب دِیا تھا۔ ملّی ترانے کا مطلع اور آٹھ شعر یوں ہیں۔
”پیارا پاکستان ہمارا، پیارے پاکستان کی خیر!
پاکستان میں رہنے والے، ہر مخلص انسان کی خیر!
خوابِ شاعر مشرق کو شرمندہءتعبیر کیا!
روزِ قیامت تک، کردارِ قائد والا شان کی خیر!
جدّوجہدِ مادرمِلّت لاثانی اور لافانی!
مادرمِلّت کے سارے فرزندوں کے اَوسان کی خیر!
اسلامی جمہوری، فلاحی بنے ریاست پاکستان!
قائداعظم کی خواہش کی، ان کے اس اَرمان کی خیر!
عمرِ خضر عطا کر مولا! اپنے مجید نظامی کو!
وارثِ نظریہءپاکستان کے ، جذبہءایمان کی خیر!
خِطّہءپنجاب سلامت، خیبر پختونخوا آباد!
قائم رہے ہمیشہ میرا سِندھ، بلوچستان کی خیر!
خودکش حملے قتل و غارت اور خلافت کے دعوے!
گاندھی کے چیلوں کے بیٹے مانگیں گے اب جان کی خیر!
”پاکستان کی شَہ رگ ہے کشمیر“ بقول بابائے قوم!
اپنے عدو سے چھڑا کے رہیں گے شَہ رگ پاکستان کی خیر!
” بی بی رمیزہ مجید نظامی!“
جنابِ مجید نظامی کی 88 ویں سالگرہ سے 9 دِن پہلے 25 مارچ 2016ءکو گلبرگ لاہور کے گورمانی ہاو¿س میں ان کی بیٹی بی بی رمیزہ مجید نظامی کی اویس ذکریا عزیز سے شادی ہوئی۔ ڈیڑھ ہزار کے قریب مہمان تھے۔ ان میں جنابِ نظامی کے نظریاتی دوست اور عقیدت مند بھی تھے۔ انکی آنکھوں میں خوشی کی چمک تھی لیکن چہروں پر کبھی کبھی اداسی کی لکیریں بھی پھیل جاتی تھیں۔ ہر کوئی سوچ رہا ہوگا کہ ”کاش اپنی پیاری بیٹی کو رخصت کرنے کیلئے آج ڈاکٹر مجید نظامی زندہ ہوتے۔ اور مَیں بھی اداس تھا جِس نے باری باری اپنی چاروں بیٹیوں کو رخصت کِیا۔ 
معزز قارئین! محترمہ رمیزہ صاحبہ کیلئے میری دعائیہ نظم کے صرف تین بند پیش خدمت ہیں 
تجھ پر رحمتِ ربّ دَوامی!
سایہ پنجتن پاک گرامی!
خوشبوئے مدنی و تِہامی!
بی بی رمِیزہ، مجِید نظامی!
بابا نظامی، ماما ریحانہ!
حوریں گائیں، تیرا ترانہ!
سدا رہے تو، بالا بامی!
بی بی رمِیزہ، مجِید نظامی!
راج کرے تو اپنے گھر میں!
بڑا اثر ہے، دعائے اثر میں!
میری دعا ہے، دعا اَلہامی!
بی بی رمِیزہ، مجِید نظامی!
” وِصال پرملال !“
26 جولائی 2014 (26/27 رمضان المبارک 1435ءہجری) کی رات جنابِ مجید نظامی عالم فانی سے عالم جاودانی کو روانہ ہو گئے تھے۔ یاد رہے کہ 26/ 27 رمضان المبارک 1366 ہجری، 14 اگست 1947ءکو قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں پاکستان قائم ہوا تھا!“۔ معزز قارئین! جنابِ مجید نظامی کے وِصال پر بھی مَیں نے نظم لکھی تھی انشاءاللہ اِس کا یہ شعر ہر دَور میں زندہ رہے گا۔ ملاحظہ فرمائیں 
” رَواں ہے، چشمہ نور کی صورت
ہر سو، ان کی ذاتِ گرامی!
جب تک پاکستان ہے زندہ
زندہ رہیں گے مجید نظامی!“

ای پیپر دی نیشن