ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے

پاکستان کی صحافت میں چند نام بہت معتبر اور اپنے طرز فکر سے منفرد رہے ہیں۔ نظامی برادران ان چند صحافیوں میں سر فہرست ہیں۔ حمید نظامی اور مجید نظامی دونوں تحریک پاکستان کے سرکردہ نوجوان رہنماﺅں میں شامل تھے۔ قائد اعظم اور لیاقت علی خان ان پر بہت اعتماد کرتے تھے۔ مجید نظامی مرحوم کی پیدائش سانگلہ ہل میں ہوئی۔ وہ قیام پاکستان کی سیاست اور جدو جہد میں اپنا حصہ ڈال کر 1954ءمیں لندن چلے گئے۔ وہاں اپنے اخبار نوائے وقت کی بھرپور نمائندگی کرتے رہے۔ مجھے یہ کہتے ہوئے خوشی اور فخر محسوس ہو رہا ہے کہ حمید نظامی کی 1962ء میں رحلت کے وقت انکے اخبار نوائے وقت گروپ کو مجید نظامی نے پورے وقار اور پیشہ ورانہ مشّاقی کے ساتھ سنبھالا۔ میرے والد پروفیسر مرغوب صدیقی کی نظامی برادران سے تحریک پاکستان کے زمانے سے دوستی اور قرابت داری تھی۔ انہوں نے محسوس کیا کہ قائد اعظم کی خواہش پر نوائے وقت گروپ کا قیام اور اجراء23 مارچ 1940 کو ہوا۔ اور اب یہ اخبار جو تحریک پاکستان کے مقاصد کی تکمیل اور نظریہ پاکستان کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے تاہم حمید نظامی صاحب کی سخت علالت کے باعث اسکی اشاعت کا تسلسل ٹوٹ سکتا ہے تو پروفیسر مرغوب صدیقی نے فوری لندن فون کیا اور اپنے دوسرے دوست مجید نظامی کو پاکستان واپس آنے کا کہا۔ مجید نظامی کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ لندن میں ماڈرن سٹائل کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ساتھ ہی وہ نوائے وقت کی نمائندگی کر رہے تھے۔ مجید نظامی نے وطن واپسی کا فیصلہ کیا اور لاہور چلے آئے۔ نوائے وقت کا پہلا آفس جو اسکے اجرا کے وقت قائم کیا گیا تھا، بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ بیڈن روڈ پر واقع تھا۔ پھر یہ شاہ دین بلڈنگ مال روڈ پر منتقل ہوا۔ پھر اس سے کچھ آگے 4 شارع فاطمہ جناح پر اپنی بلڈنگ میں منتقل ہو گیا اور اب یہ گنگا رام ہسپتال کے آگے اپنی نئی بلڈنگ میں منتقل ہو چکا ہے۔ مجید نظامی نے نوائے وقت کو مزید بہتر بنانے کی کوشش کی اور اسکی اشاعت میں ناقابل یقین اضافہ کیا۔ اس دوران حمید نظامی کی بیگم نے نوائے وقت کو خود چلانے کی کوشش کی مگر ناکام رہیں اور دوبارہ مجید نظامی سے درخواست کی کہ وہ اخبار کو سنبھالیں۔ کچھ سال خاموشی سے گزرے مگر پھر اختلافات شروع ہوئے اور مجید نظامی نے اپنیاخبار ندائے ملت کا اجراءکیا۔ یہ غالباً 1969ءیا 1970 کا سال تھا۔ میرے والد صاحب مرغوب صدیقی نے اس میں مضامین لکھے۔ انکی انٹرنیشنل حالات سیاست اور ڈپلومیسی پر ناقابل یقین حد تک گرفت تھی اور مجید نظامی کی ادارت میں اس اخبار کو عروج حاصل ہوا۔ مگر کچھ عرصہ بعد پھر نوائے وقت گروپ مجید نظامی کو سنبھالنا پڑا۔ مجید نظامی نے تحریک پاکستان میں شاندار خدمات انجام دی تھیں۔ اس بناءپر لیاقت علی خان نے انہیں دو بڑے اعزازات سے بھی نوازا تھا۔ مجید نظامی کی تمام تر زندگی اور صحافت حب الوطنی پر مبنی تھی۔ انہوں نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور جموں کشمیر پر بھارتی مظالم کو کبھی معاف نہیں کیا۔ وہ اس مسئلے میں دو ٹوک اور واضح موقف رکھتے تھے۔ شایدہی اتنا سخت موقف خود کشمیری اور بنگالی بھی نہ رکھتے ہوں۔ انہوں نے مشرقی پاکستان بنگلہ دیش اور بھارت میں موجود بہاریوں اور دیگر اقوام کے لیے ایک فنڈ بھی قائم کیا تھا۔ جو ابھی تک چل رہا ہے۔ ان کی اپنے کاز سے کمٹمنٹ ناقابل یقین حد تک مضبوط تھی۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ 1970ءکی دہائی میں ہمارے مال روڈ والے فلیٹ میں والد مرحوم کے چند قریبی دوست بڑی باقاعدگی سے آتے تھے جن میں مجید نظامی ، اے کے بروہی، سجاد احمد جان، جسٹس حمود الرحمن شامل ہوتے تھے۔ اور کبھی دیگر دوستوں کے ہمراہ یہی احباب مجید نظامی مرحوم کی رہائش گاہ پر جمع ہوتے تھے۔ ہماری والدہ مرحومہ کے ہاتھوں سے بنے شاہی ٹکڑے دو بڑی ٹرے میں سجا کر مجید نظامی مرحوم کے گھر لے جائے جاتے۔ 
ہمارے پاس تو کوئی گاڑی نہیں تھی ان اکابرین میں سے ہی کسی کی گاڑی میں سامان مجید نظامی کے گھر پہنچایا جاتا تھا۔ مجید نظامی نے انگلش اخبار (Nation The)بھی نکالا۔ نوائے وقت گروپ نے اپنا ایک نیوز چینل ”وقت نیوز"بھی شروع کیا تھا۔ اسے بھی بڑی پذیرائی ملی۔ شنید ہے کہ اب وقتطٹی وی کی ری لانچنگ ہو رہی ہے جس کی آج کے پر آشوب دور میں ضرورت بھی ہے۔ پرنٹ میڈیا تاریخ کو محفوظ کرتا ہے مگر آج کل ڈیجیٹل میڈیا کا دور بھی ہے، وقت نیوز چینل دوبارہ شروع ہوگا تو کسی ایک مکتبہ فکر کو مکمل اور جاندار ذریعہ اظہار میسر آجائیگا اور معاشرے میں پھیلتی ہوئی ضرورت سے زیادہ آزاد خیال بھی رک سکے گی۔ نوائے وقت کا اجراء قرار دادِ پاکستان کے وقت 23مارچ 1940کو ہوا اور 1962 ءکے بعد سے مجید نظامی نے 50 سال تک ایک بڑے طاقتور ترین میڈیا ہاﺅس کی سربراہی کی۔ انکی 70 سالہ صحافت میں کوئی جتنا مرضی اختلاف کرے وہ اپنے آدرش سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے۔ میرے والد مرغوب صدیقی کی وفات 1979ءمیں ہوگئی تھی۔ میں ان کی وفات کے بعد بہت دفعہ مجید نظامی صاحب کے پاس گیا، ہر مرتبہ ان کا چہرہ دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا کہ پاکستان کا مکمل نقشہ ہے۔ مجید نظامی نے ایک اور بڑا کام کیا۔ وہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کا قیام تھا۔ اسکا ایک بلاک مال روڈ پر نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی صورت میں موجود ہے۔ جبکہ دوسرا بڑا بلاک جوہر ٹاﺅن میں قائم ہے۔ مگر افسوس کہ مجید نظامی کی اس شاندار کوشش کے مکمل حصول کے راستے میں ٹرسٹ کی انتظامیہ اور بیورو کریسی حائل ہے۔ کاش کوئی دوبارہ مجید نظامی پیدا ہو اور اس نظریاتی ادارے کو پوری قوت سے دوبارہ منظم کرے۔
٭....٭....٭

ای پیپر دی نیشن