حضرت قائداعظم محمدعلی جناح نے فرمایا تھا کہ قلم زبردست طاقت ہے۔ آپ لوگ اس کے امین ہیں، اس قوت سے صحیح کام لیں، آپ قوم کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ قائدکی دورس اوربصیرت افروز نگاہوں نے عہد غلامی میں ہندوستان کے نقشہ میں مسلمانوں کے اہم کلیدی کردارکو بخوبی دیکھ لیاتھا اور اس کردار کی اہمیت کو اجاگرکرنے کےلئے قلم(صحافت) کی طاقت کا برملا اعتراف اوردرست سمت میں نشاندہی پر زور دیاتھا۔ انہوں نے حمیدنظامی مرحوم کا انتخاب کیا اور انہیں لاہور سے محکوم مسلمان قوم کی ترجمانی کےلئے ایک نمائندہ اخبار کے اجراءکی تاکیدوہدایت کی چنانچہ23مارچ1940ءکو قرارداد پاکستان کے موقع پر اخبار کا اجراءہوا۔بعدازاں نظریہ پاکستان کے امین حمیدنظامی مرحوم نے نصف صدی سے زائد اس کی ادارت کا فریضہ اس خوبی سے ادا کیا کہ اپنے پرائے سب اس کے معترف اور قائل ہوگئے اوران کے بعدمجیدنظامی نے صحیح معنوںمیں اپنی محنت اور ریاضت سے نوائے وقت کو اعلیٰ مقام پررکھا اور حب الوطنی کی مثال قائم کی۔جہاں حمیدنظامی مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کےلئے بھارت کےخلاف برہنہ شمشیر تھے وہاں پہ مجیدنظامی نے بھی ہمیشہ صحافت اور سچائی کا علم بلند رکھا۔ ان کی اسلام پسندی، جمہوری اصولوں کی پاسداری اورصحافت کو وقار عطاکرناہمیشہ یاد رہے گا۔ صدارت و وزارت عظمیٰ کے مناصب پر متمکن ہوے والے سیاستدان بھی ان سے سیاسی تربیت حاصل کرتے جبکہ شعبہ صحافت میںمجید نظامی کے چھوڑے ہوئے روشن نقوش ہمیشہ بیرومیٹر اور رہنمائی کا ذریعہ رہیںگے۔
صحافت کی دنیامیں باوقار اور سربلند دوایسی شخصیات (ڈاکٹرمجیدنظامی اور حمیدنظامی) جو پاکستان کا فخرہیں، اپنے نظریے اور وطن سے محبت کرنے والی سچی شفافیت سے بھرپور زندگی گزارنے والی ان ہستیوں کو قوم کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ مجید/حمیدنظامی کے جذبہ حب الوطنی کا نوجوان نسل پہ بھی بہت اثرتھا ان کی ایک آواز پہ لبیک کہتے نوجوان نسل تحریک پاکستان کو وہ جلابخشی کہ دشمنوں کے پسینے چھوٹ گئے۔ تحریک پاکستان کا علم اس کا نظریہ اس کی جدوجہد اور اس سے لگن کاجنون لے کے رہیںگے پاکستان بن کے رہے گا پاکستان کے نعروں سے گونج اٹھا۔
آج جس اخبار(نوائے وقت) میں آپ میرا کالم پڑھ رہے ہیں اس اخبار سے پہلے جو اخبار نکل رہے تھے ذرا اس کا ایک جائزہ دیتی ہوں۔
کوہ نور1880ءمیں لاہور پنجاب سے شائع ہوا،1863میں گوپی ناتھ پنڈت اور مکھنڈرام پنڈت نے اخبار نکالا۔
بیسویں صدی میں پیسہ نکلا جو محبوب عالم نے شروع کیاتھا اس کے بعد زمیندار اخبار مولانا ظفرعلی خان جوکہ ان کے والدگرامی نے نکالا تھا۔
پھر وطن اخبار مولوی انشاءاللہ خان نے نکالا۔ 1867ءمیںمولانا غلام رسول مہر نے روزنامہ انقلاب کا اجراءکیا۔
راقمہ نے یہ تمہیداس لئے باندھی کہ اب سب پر واضح ہوگاکہ نوائے وقت کن حالات میں اورکیسے شروع ہوا اورحمیدنظامی،مجیدنظامی کی شخصیت اور نوائے وقت کی کا ہمہ گیریت سے ہم کیوں انکار نہیں کرسکتے۔ ایک شخص فرد واحد ہوتاہے مگر اس کا نظریہ ، احساس، وفا،لگن اورکردار اسے خورشید جہاں بنادیتا ہے، حمیدنظامی مرحوم سچے عاشق رسول اورجان پر کھیل کر وطن کی حرمت کو بیان اور بلندکرنے والے نے اپنے قائدمحمدعلی جناح بانی پاکستان کی آرزو پر 23مارچ1940 کونوائے وقت اخبار نکالنے کااعلان کردیا، حمیدنظامی سمجھتے تھے کہ صحافت کی شمع سچائی، بہادری، بے باکی جنون،نظریات اور قربانیوں کے لہو تیل مانگتی ہے یہ صحافت کے یہ تمام اوزار انکے تن ومن کا اثاثہ تھے۔ وہ انہیں قائداعظم کی قیادت ،مادرملت کی رفاقت اقبال کے نوجوان طلباءوطالبات کا جذبہ اس تحریک کو رفعتوںپہ دیکھ رہاتھا۔ برصغیرکی صحافت کو انگریز سامراج ہندو صحافیوں کی سازشوں،کینہ پرورخصلت بغل میں چھری منہ میں رام رام اور انگریزوں کا مسلمانوں کوغلام بنائے رکھنے کے تصور نے ایک جنگی صحافت بنادیاتھا۔ دنیا کا کوئی بھی کاروبار یا تعلقات تھوڑے بہت ہیرپھیر یا ناجائز مراعات کے بنا پروان چڑھانا مشکل سمجھا جاتا تھا (اب تو انتہائی ناگزیرہے)
اس ضمن میں تمام اخبارات کے مالکان کہیں نہ کہیں حالات اوربہتی ندیا کا دھارا دیکھتے ہوئے اس میں اپنی ضرورت کی گاگربھرلیاکرتے اورتحریک پاکستان سے بغض رکھنے والوںکے منظورنظربن جاتے۔
مگرآفرین ہے اس مردمجاہد بانی نوائے وقت اور بابائے صحافت حمیدنظامی مرحوم اور مجیدنظام مرحوم پہ کہ جنہوں نے دریامیں رہ کے مگرمچھوںسے بیر لیا اور ان کے حلقوم کے زہر سے اپنے نظریے اور اپنی صحافت اور اپنے وطن کو محفوظ رکھا۔ مجیدنظامی نے اپنے جوش اور ہوش سے اپنے نوجوانوں اور تحریک پاکستان سے تعلق رکھنے والی تمام تنظیموں،قائداعظم محمدعلی جناح کے جذبے کی نظریاتی اساس کو یونیورسٹی کے طلباءکو ان کی لگن اور جوش وخروش کو اپنے اخبار کے ذریعے گھرگھر پہنچایا۔
مجیدنظامی مرحوم ہمیشہ ہرچٹان کے سامنے سینہ سپر ہوئے، جمہوریت کے علمبردار مجیدنظامی مرحوم ہمیشہ نظریہ پاکستان کا پرچار کرتے رہے،وہ صحافی کو معاشرے کا تن آور درخت سمجھتے تھے جس سے پھل آور سائے کی امیدجلاپاتی ہے۔
قارئین صحافت اور سچائی کا جہاں بول بالا ہوگا وہاں پہ مجیدنظامی مرحوم کا نام مہ کامل بن کے چمکے گا، مجیدنظامی مرحوم کی آج10ویںبرسی ہے، عوام اور ملت کےلئے جان کی بازی لگانے سے نہ گھبرانے والے ایسی نابغہ روزگارکہاں ملتے ہیں، ان کی دانش وحکمت کے سامنے دشمنان اسلام کی تمام چالاکیاں ہیچ ہوئیں، تحریک پاکستان مجیدنظامی مرحوم نوائے وقت ایک دوسرے کےلئے لازم وملزوم رہے اورآج بھی ہیں۔ نوائے وقت کے لکھے ہوئے اداریے ان کی عالمانہ، بامعنی، دوراندیشی،حکمت اور تلوارکی کاٹ سے بھرپور آج بھی دلوں پہ اثرکرتے ہیں۔ دوقومی نظریے کی مشعل ہرمحب وطن،محب اسلام کے دل میں ان کی وجہ سے روشن ہے،نظریہ پاکستان ٹرسٹ اس حوالے سے آج بھی ہمہ گیر افادیت کا حامل ہے، مجیدنظامی کا کہنا تھاکہ دو قومی نظریہ کو ہمہ وقت تازہ اور زندہ رکھ کر ہی قیام پاکستان کے مقاصدکو کامیابی سے ہمکنارکیاجاسکتاہے اور انگریز وہندوکے استحصالی نظام کی بدولت پیداہونے والی غلامانہ ذہنیت و قومی اورملی خودمختاری کی سوچ میں تبدیل کرکے شاہراہ ترقی پر گامزن ہواجاسکتاہے۔