شاید میری نسل کے لوگ اس آخری قطار کے لوگ ہیں جنہوں نے پاکستان میں نظریاتی سیاست اور نظریاتی صحافت دیکھی ہے۔ بدقسمتی سے سیاست میں ہمیں کبھی نظریاتی قیادت نصیب نہیں ہوئی۔ جن سیاسی رہنماﺅں نے کسی نظریے کی بنیاد پر ووٹ حاصل کیے اب آ کے وہ سب کچھ سٹنٹ ہی ثابت ہوا ہے، صرف اور صرف اقتدار کا کھیل لیکن ایک وقت تھا جب ملک میں نظریاتی بنیادوں پر ادب بھی لکھا جا رہا تھا اور صحافت بھی کی جارہی تھی۔ نوائے وقت پاکستان کا نمبر ون رائیٹسٹ اخبار ہونے کے ساتھ ساتھ نظریہ پاکستان کی بنیاد پر مضبوطی سے جما ہوا اور کسی ستون کی طرح ایستادہ اخبار تھا اور ہے بلکہ اب تو یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ملک میں واحد نظریاتی اخبار ہے۔ اس کے مقابلے میں مساوات اور دیگر کئی بائیں بازو کے نظریاتی گراونڈ پر اخبارات لائے گئے جو نظریے سے زیادہ سیاسی پارٹی کے اخبار ہونے کی وجہ سے حکومت کے جانے اور سیاسی پارٹی کے نظریے سے پھسلنے کی وجہ سے کھڑے نہ رہ سکے۔ پھر نوائے وقت کے سامنے سرمایہ دارانہ نظریے کے حامل اخبارات کو میدان میں لایا گیا رفتہ رفتہ ان کے اندر سے بھی نظریہ نکل گیا اور سرمائے کا کھیل باقی رہ گیا۔ وہ کمرشل ہوگئے۔ شاید صحافت پر آنے والے مشکل حالات سے سامنا کرنے کے لیے اخبارات کے پاس کوئی چارہ ہی باقی نہیں رہ گیا تھا کہ وہ نظریے کو رکھیں یا سروائیو کریں۔ نوائے وقت وہ واحد اخبار ہے جو آج بھی اسی فکری و نظری پامردی اور ثابت قدمی سے اپنے قدموں پر قائم ہے جس پر اس کی بنیاد رکھی گئی تھی اور اس تمام ہمت، حوصلے، جذبے، سوچ اور استقلال کے پیچھے ایک ہی شخصیت اور ایک ہی ذات کی روح نظر آتی ہے اور وہ ہیں مجید نظامی مرحوم۔ وہ صاحب ِ بصیرت اور صاحب نظریہ مدیر تھے جنہوں نے قائد اعظم اور علامہ اقبال کے بعد نظریہ پاکستان کی سب سے زیادہ حفاظت کی۔ پاکستان بننے کے بعد ہی جس طرح بین الاقوامی فورسز دوقومی نظریے اور نظریہءپاکستان کی بیخ کنی کے لیے سرگرم ہوگئی تھیں اگر حمید نظامی، مجید نظامی اور نوائے وقت نہ ہوتے تو جیسے ہم آج کمزور کردیے گئے ہیں یہ بہت پہلے ہوچکا ہوتا۔ نوائے وقت پر سب سے کڑا وقت تب آیا جب اسے کمرشل ازم کے طوفان ِ بے لگام کا سامنا کرنا پڑا لیکن مجید نظامی صاحب کا واضح موقف تھا کہ ہم اپنی سماجی اور دینی روایات کو بھلا کر محض اشتہارات کے لیے خود کو گرا نہیں سکتے۔
پھر جب پاکستان کی صحافت پر زردی کے سائے منڈلانے لگے اور ہرطرف سکینڈلز کی صحافت کا واویلا نظر آنے لگا تو مرحوم مجید نظامی نے نہ صرف نوائے وقت کو اس سے محفوظ رکھا بلکہ پورے ملک کی صحافت میں ایک مثال بن کر چمکتے رہے کہ راہ روان ِ نَو کو روشنی ملتی رہے اور راستہ نظر آتا رہے۔ مجید نظامی صاحب کی وجہ سے نوائے وقت پاکستان میں نظریاتی صحافت کی تربیت گاہ رہا۔ اس یونیورسٹی نے سعید آسی جیسے صحافتی مینار اور خالد بہزاد ہاشمی جیسے خالص پروفیشنل پیدا کیے۔
مجھے یاد ہے 1990ء میں میرا نوائے وقت میں آنا جانا خالد بہزاد ہاشمی کی وجہ سے شروع ہوا۔ میری چوتھی کتاب آئی تو میں جناب مجید نظامی صاحب کو پیش کرنے کے لیے ان کے آفس گیا تو اس وقت تک یہ بات میرے علم میں آچکی تھی کہ ان تک پہنچنے سے پہلے ان کے دربان کی آشیرباد لینا آگ کے دریا سے بھی گزرنے سے زیادہ مشکل کام ہے۔ مجید نظامی صاحب کی ریسیپشن پر ایک نہایت دلچسپ شخصیت براجمان ہوا کرتی تھی جس کا نام منیر تھا۔ منیر صاحب کے رعب ، جلال اور امپاورمنٹ کا یہ عالم تھا کہ نوائے وقت کا اے ٹو زی تمام سٹاف انہیں ڈی ایم ڈی کہتا تھا یعنی ڈپٹی مینیجنگ ڈائریکٹر۔ منیر ڈی ایم ڈی کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ ہر چھوٹے بڑے، افسر ماتحت، امیر غریب، اہم غیر اہم سب کو ایک آنکھ سے دیکھتا تھا۔ اس کے چہرے پر ایک مستقل ناراضگی ، تحکم اور سامنے والے کے لیے ایک ہلکی اور غیر محسوس بیگانگی بھی نظر آتی تھی۔ منیر کی مرضی ہوتی تھی وہ جسے چاہے صاحب کے دفتر میں جانے دے، جسے چاہے روک لے۔ مجید نظامی صاحب سے منیر کی سفارش پر بڑے بڑے مشکل کام کروالیے جاتے تھے۔ مجید نظامی صاحب نے ایک آنکھ سے معذور ایک ان پڑھ اور ایک غریب لیکن انتہائی دیانتدار، فرض شناس اور وفادار انسان کو اتنی عزت سے نواز کر سب کو یہ پیغام دے رکھا تھا کہ انسان کی عزت کا پیمانہ دولت ، عہدہ یا دیگر دنیاوی امتیاز نہیں بلکہ اس کا انسان ہونا ہے۔ میری منیر سے دوستی تھی۔ یہ بھی اسی لیے ہوگئی تھی کہ میں منیر کو ویسی ہی عزت دیتا تھا جیسی ان کے باس دیتے تھے۔
میں دوکتابیں لے کر گیا۔ ایک منیر کو دی اور بتایا کہ دوسری نظامی صاحب کو دینی ہے۔ منیر پہلے شرمایا اور ہچکچایا پھر میرے اصرار پر کتاب رکھ لی اور مجھے بتایا کہ صحیح وقت پہ آیا ہوں۔ صاحب فارغ ہیں۔ منیر نے مجھے مشورہ دیا کہ صاحب سے کالم کی گزارش بھی کر دینا۔ شاہ جی کالم شروع کرو،: نظامی صاحب شاعروں سے بہت پیار کرتے ہیں۔
میں اندر داخل ہوا سلام کیا ، محترم مجید نظامی نے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ میں نے ادب سے کتاب ان کے سامنے رکھی اور بتایا کہ میں شاعر ہوں تو انہوں نے نہایت دھیمے لہجے میں بتایا کہ میں آپ کو جانتا ہوں۔ ہمارے اخبار اور میگزین میں آپ کے بارے میں جو چھپتا ہے میری نظر سے گزرتا ہے۔ کتاب لے کر انہوں نے ایک دوصفحات الٹے اور میرا شکریہ ادا کیا اور میری طرف دیکھا کہ اگر میں کسی کام سے آیا ہوں تو کہہ دوں تو میں نے فوراً ہی درخواست کی کہ میں کالم لکھنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے بغیر توقف کے کہا کہ ٹھیک ہے آپ کوئی کالم لکھ کر میرے پاس لائیے۔ میں نے شکریہ ادا کیا اور سلام کرکے باہر نکل کے منیر کو تین چار فوجی سلیوٹ مارے کہ کام ہوگیا ہے۔ صاحب نے کہا ہے کہ لکھ کر لاﺅ۔ منیر بولا کہ لے آئیں پھر ایک دو دنوں میں ہی لے آئیں۔ یوں مجھے مجید نظامی صاحب کی یونیورسٹی آف نوائے وقت میں داخلہ مل گیا اور میں نے بطور کالم نگار نوائے وقت سے آغاز کیا اور مجھے یہ بھی فخر ہے کہ میرا پہلا کالم جناب مجید نظامی صاحب نے پڑھ کے پاس کیا ہوا ہے اور الحمدللہ میں آج بھی نظریہئپاکستان اور اپنی روایات پر کاربند رہنے والا شاعر اور صحافی ہوں۔ میں مجید نظامیئن ہوں۔