امام صحافت کی ادارت کے باون درخشاں ماہ وسال

خالد بہزاد ہاشمی
khalidbehzad11@gmail.com
دبستان صحافت کے ماہ تاباں‘ نظریہ پاکستان کے محافظ‘ آبروئے حریت‘ ایڈیٹر انچیف نوائے وقت گروپ امام صحافت مجید کی رحلت  کے ساتھ اُردو صحافت کا ایک درخشندہ عہد تمام ہوگیا۔  پاکستان میں نظریاتی صحافت کے علمبردار جناب مجید نظامی صحافت کے میدان خارزار میں بہتر سال تک آبلہ پائی کرتے رہے۔ جبکہ باون سال تک انہوں نے روزنامہ نوائے وقت کی ادارت کا فریضہ حسن و خوبی سے سرانجام دیا۔ انکی زیر ادارت نوائے وقت نے ترقی و کامیابی کا سفر بہت برق رفتاری سے طے کیا جس میں انکی پیشہ وارانہ مہارت‘ خود اعتمادی‘ معاملہ فہمی اور قوت فیصلہ کا بہت دخل تھا۔ ادارہ نوائے وقت انکی زیر ادارت جلد ایک تن آور برگد کی شکل میں قومی صحافت کا سب سے معتبر ذریعہ اور وسیلہ بن گیا۔ بعد میں انکے زیر سایہ دی نیشن‘ فیملی میگزین‘ پھول‘ ندائے ملت اور وقت نیوز چینل جیسے اداروں کی بھی یکے بعد دیگرے بنیاد رکھی گئی جو بتدریج ترقی کر کے کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔
خام مال کو کندن بنایا
کالم نگاروں کی بڑی کھیپ متعارف کرائی
دبستان نوائے وقت کواس بات کا ہمیشہ اعزاز رہے گا کہ مختلف اخبارات اور چینلز میں جگہ بنانے اور چمکنے چہکنے والے آج کے معتبر کالم نگاروں کو صحافت میںمجید نظامی صاحب کی سرپرستی میں ہی متعارف کروایا گیا۔ ان میں سے اکثریت کو نوائے وقت سے ہی پہچان اور بریک تھرو ملا۔یہاں ہم مجید نظامی صاحب کی مثال اساطیری کہانیوں کے اس پارس پتھر سے دے سکتے ہیں جس سے چھونے والی ہر شے سونا بن جایا کرتی ہے۔ وہ خام مال کو کندن بنانے کا ہنر جانتے تھے۔ انہوں نے زندگی بھر نوآموزسے لیکر کہنہ مشق کالم نگاروں کی تحریروں کی نوک پلک سنواری اور انکی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ان ناموں کی تفصیل تو بہت طویل ہے تاہم ان میں سے وارث میر‘ نذیر ناجی‘ ڈاکٹر صفدر محمود‘ عطاء الحق قاسمی‘ سید انور قدوائی‘ عبدالقادر حسن‘ اے آر خالد ، رشید احمد خان، مجاہد منصوری‘ ارشاد احمد عارف‘ عرفان صدیقی‘ جواد نذیر‘ رحمت علی رازی‘ عبداللہ طارق سہیل‘ سکندر حمید لودھی‘ سلمان غنی‘ طاہر ملک اور دیگر کئی کالم نگار قابل ذکر ہیں۔
کالموں میں پھلجھڑیوں اور نشتر زنی کے اضافے
انہیں فکاہی کالم نگاری میں بے مثال ملکہ حاصل تھا۔ راقم الحروف کو سنڈے  و  فیملی  میگزین ایڈیٹر  بننے  سے  قبل    ڈسٹرکٹ ڈیسک اور سٹی ڈیسک پر درجنوں نامور کالم نگاروں کے سینکڑوں کالم سالہا سال اندرونی صفحات پر شائع کرنے کا موقع میسر آیا۔نظامی صاحب جہاں حکمرانوں کی خوشامد اور مدح سرائی کو ناپسند کرتے ہوئے ان جملوں کو مناسب ایڈیٹنگ کے ساتھ حذف کردیتے وہیں وہ ان کالموں میں مختلف مقامات پر پھلجھڑیاں‘ نشتر زنی اور کاٹ دار جملے بھی تحریر کرتے۔ بسا اوقات ستائشی جملے کیساتھ ایک آدھ لفظ ایسا فٹ کرتے کہ وہ تعریف کی بجائے تنقید بن جاتا اور مذکورہ کالم نگار اس چٹکی کو پی کر آئندہ کیلئے محتاط ہو جاتا۔ جبکہ اختتامی جملے میں انکا اضافی حصہ پورے کالم کی جان ہوتا اور قاری اسے مذکورہ کالم نگار کا شہ پارہ سمجھ کر اسے داد دیئے بغیر نہ رہتا۔ اس طرح ان سب کے ساتھ یہ اضافی جملے بخوبی جذب ہو کر ان کالموں کا لازمی جزو بن جاتے۔
مغویہ اور مقتولہ کا نام شائع ہونے کی ممانعت
وہ خواتین اور لڑکیوں کا بے حد احترام اور خیال رکھتے اور یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اس سلسلہ میں کوئی بھی دوسرا اخباری مالک اخلاق کی اس معراج پر نہ پہنچ سکا جس پر وہ ہمیشہ متمکن رہے۔ انہوں نے سابق نیوز ایڈیٹرز وحید قیصر (مرحوم) اور حمید اصغر نجید (مرحوم) کو سختی سے ہدایت کی ہوئی تھی کہ کسی بھی اغوا یا قتل ہونے والی خاتون یا لڑکی کا نام شائع نہ ہو بلکہ اسکی بجائے نام کا پہلا لفظ جیسے مسماۃ س یا ف ہی شائع کیا جائے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے نیوز ڈیسک اور ڈسٹرکٹ ڈیسک پر سب کو سختی سے ہدایات جاری کی ہوئی تھیں۔ انکا کہنا تھا کہ اغوا یا قتل ہونے والی خاتون کا نام اخبار میں شائع ہونے سے خاندان کے دیگر ارکان بلا وجہ متاثر ہوتے ہیں اور ایسی رپورٹنگ بچیوں کے رشتے ناطے کی کوششوں میں حائل ہوتی ہے۔ اسی طرح انہوں نے رپورٹنگ نیوز روم اور میگزین میں کام کرنے والی خواتین کو بھی ٹائم کی چھوٹ دے رکھی تھی اور انہیں شام ڈھلنے سے قبل گھر جانے کی اجازت تھی اور اس ضمن میں ملازم خواتین کے ساتھ وہ ہمیشہ درگزرہی سے کام لیتے۔
کارکنوں کی عزت نفس کا خیال
کارکنوں کی عزت نفس کا بھی انہیں بے حد پاس تھا‘ اسی کی دہائی کے آخر میں جب بھی سٹی انچارج تھا۔ انہوں نے گمنام خط میں لگائے گئے ایک الزام پر مجھے آفس طلب کیا حسن اتفاق سے اس وقت جسٹس (ر) جاوید اقبال وہاں تشریف فرما تھے۔ انہوں نے کاغذ پر لکھ کر مجھے مذکورہ الزام کی نوعیت سے آگاہ کیا اور ساتھ یہ بھی تحریر کیا کہ چونکہ جسٹس صاحب تشریف رکھتے ہیں اس لئے آپ سے تحریری طور پر بات کر رہا ہوں آپ اسکی تحریری وضاحت فرمائیں، چنانچہ میں نے اس سلسلہ میں تحریری وضاحت کی جس پر وہ مطمئن ہو گئے۔
ٹھہرے لہجے میں بلا کا اعتما
د اور سبق آموز بیانیہ
وہ جب بھی اور جس بھی محفل یا پلیٹ فارم سے نصف صدی کی صحافتی اور سیاسی نشیب و فراز کی داستان سناتے تو انکے ٹھہرے ہوئے لہجے میں بلا کا اعتماد ہوتا اور اسکے ساتھ ہی بیانیہ بھی دلچسپ اور سبق آموزی کے رنگ سے مزین ہوتا۔
کسی بھی تقریب میں مرکز نگاہ
اخباری مالکان کی میٹنگ ہوتی یا حکمرانوں کی پریس کانفرنس وہ درجنوں اخباری مالکان کی موجودگی میں سب کی نظروں کا محور و مرکز ہوتے۔ انکی شخصیت کے سحر اور صحافتی مقام کے سامنے کسی کا جادو نہ چلتا اور تمام محافل میں انکی رائے اور مقام کو ہمیشہ اولیت دی جاتی۔۔۔۔مرحوم ملازمین کے بچوں کیلئے ملازمتیں اور وظائف کا اجراء ان کا معمول رہا۔ادارے کے وفات پانے والے درجنوں ملازمین کے بچوں کو کم تعلیم اور دفتری تجربہ نہ ہونے کے باوجود بھی ہمیشہ ملازمتیں دیں اور انکی بیواؤں اور یتیموں کے مناسب تعلیمی وظائف بھی مقرر کئے جو انہیں ہمیشہ باقاعدگی سے ملتے رہے۔
حب الوطنی: پاکستان سے عشق اور جنون
انہیں سب سے بڑا محب وطن اور سب سے بڑا پاکستانی کہنا بے جا نہ ہو گا۔ انہیں پاکستان سے عشق نہیں بلکہ جنون تھا جس کی محبت میں وہ کسی مفاد اور مصلحت کو خاطر میں نہ لاتے۔
بھارت کے خلاف شمشیر برہنہ
امام  صحافت  مجید نظامی بھارت کے خلاف شمشیر برہنہ تھے اور تازیست اسے للکارتے رہے۔ وہ کشمیری بھائیوں اور بھارتی مسلمانوں پر توڑے جانے والے بہیمانہ مظالم اور ان کے قتل عام پر کبھی خاموش نہ رہے بلکہ ہمیشہ بھرپور احتجاج کرتے رہے۔
کشمیریوں کے حق میں سب سے موثر آواز
وہ مظلوم کشمیریوں کی حمایت میں بلاشبہ سب سے موثر آواز تھے۔ ملک میںان کی سرکردگی میں نوائے وقت نے ہی مسئلہ کشمیر کو سب سے زیادہ اجاگر کیا، جس نے حکمرانوں کو بین الاقوامی پلیٹ فارم پر اس مسئلہ کو اٹھانے پر مجبور کیا۔ مقبوضہ کشمیر کے حریت رہنما انہیں اپنا سب سے بڑا ہمدرد و غمخوار اور حمایتی گردانتے اور انہیں لائق صد تکریم سمجھتے ہوئے پیر و مرشد کا درجہ دیتے۔
محصورین بنگلہ دیش اورکشمیری بھائیوں کیلئے فنڈ
بھارتی جارحیت کے نتیجہ میں مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش بننے کے بعد انہوں نے وہاں رہ جانے والے محب وطن پاکستانیوں ’’محصورین بنگلہ دیش‘‘ کے لئے نہ صرف فنڈ قائم کیا بلکہ ان لاکھوں بے گھر محصورین کی بحالی اور مدد کے لئے تاحیات اقدامات کرتے رہے۔مجید نظامی نے مظلوم کشمیری بھائیوں کیلئے نوائے وقت کے پلیٹ فارم سے کروڑوں کے فنڈ قائم کئے۔ جس میں ادارہ کے علاوہ ملک اور دنیا بھر سے محب وطن پاکستانی عطیات جمع کر کے اپنے بھائیوں کی مدد کرتے ہیں۔
 ایم ڈی نوائے وقت گروپ محترمہ رمیزہ مجید نظامی صاحبہ ڈاکٹر مجید نظامی صاحب کی اکلوتی صاحبزادی ہیں جو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور پیشہ وارانہ صحافتی تجربے سے مزین ہیں وہ اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ انہیں ڈاکٹر مجید نظامی صاحب نے صحافت کے تمام رموز سے آگاہ کیا اور انکی تربیت اور رہنمائی فرمائی اور اپنی زندگی میں ہی ان کے نوجواں کاندھوں پر  بھاری ذمہ داری بھی رکھی۔ انہوں  نے  خود  کو  ان بھاری  ذمہ  داریوں  کا  اہل  ثابت  کیا  اور ان کی  سرپرستی  و رہنمائی  میں  نوائے وقت  گروپ  پھل  پھول  رہا  ہے  اور خلدِ آشیانی، جنت  مکانی  مجید  نظامی  کی روح  انکی  کامیابیوں  اور نوائے وقت  کو  پھلتا  پھولتا  دیکھ  کر  خوشی  سے  سرشار ہوتی ہوگی۔  خدا تعالیٰ نوائے وقت پر اسی طرح ان کا روحانی فیض سایہ فگن رکھے اور یہ ادارہ دن دگنی رات چوگنی ترقی کرے۔ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر مجید نظامی مرحوم کے بہشت میں کروٹ کروٹ درجات بلند کرے۔ آمین۔

ای پیپر دی نیشن