آسمان صحافت کا اجالا مرحوم مجید نظامی

 حکیم محمد عزیز الرحمن جگرانوی  
مرحوم و مغفور مجید نظامی کو ہم سے بچھڑے دس برس گزر گئے، تقریباً پون صدی تک صحافت کے آسمان سے لفظوں کی حرمت کا اجالا کرکے  آپ نے آج ہی کے روز اللہ پاک کے حضور  اپنے ابدی مقام پر حاضری دے دی۔نظامی خاندان سے ہمارا تعلق جناب مجید نظامی کے بچپن کے دنوں سے ہے اور نوائے وقت سے ہمارے خاندان کا تعلق اُس زمانے سے ہے جب اس کا اجرا ہوا۔ راقم الحروف کے والد گرامی حکیم محمد شریف جگرانوی، جناب حمید نظامی، جناب مجید نظامی کے قریبی عقیدت مندوں میں شامل ہیں۔ ان دونوں عظیم بھائیوں نے تحریک پاکستان اور تکمیل پاکستان میں بھرپور کردار ادا کیا۔ راقم الحروف کو بھی جناب مجید نظامی سے درجنوں بار ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی۔ جب بھی ملاقات ہوتی ایک نیا ولولہ، پیغام، تحریک اور نیا جذبہ ملتا۔ مجید نظامی صاحب حقیقت میں انسائیکلو پیڈیا آف پاکستان تھے۔ ایسے بڑے لوگ اپنی زندگی میں کروڑوں لوگوں سے زیادہ تن تنہا کام کر جاتے ہیں اور ان کا کام صدیوں تک تاریخ میں زندہ رہتا ہے۔ جناب مجید نظامی کا قائم کیا ہوا نظریہ پاکستان ٹرسٹ جو نئی نسل کے لیے کام کر رہا ہے وہ کام ہم سب کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اپنے دیگر کارہائے نمایاں کی وجہ سے جناب مجید نظامی ایک کھلی کتاب اور ایک سمندر کی مانند ہیں جو اپنا سفر تاقیامت جاری رکھیں گے۔ ان کے وصال کے بعد ان کی حقیقی جانشین ایم ڈی محترمہ رمیزہ نظامی نے ان کے مشن کو ٹھیک اسی طرح راہ پر گامزن  رکھاہے۔
مجید نظامی اڑھائی برس کے تھے جب کم سنی ہی میں یتیمی کا آغاز ہوگیا اور بچپن کی شگفتگی کی جگہ افسردگیوں کا حصار قائم ہو گیا۔ زندگی کی بڑھتی ہوئی شورشیں سہانے خواب محو کر دیا کرتی ہیں مگر مقدس روحوں کا خیال زندگی کی شوریدہ سری میں بھی رکتا نہیں جس طرح چودھویں کا چاند اپنی جملہ تابانیوں کے ساتھ طلوع ہو کر رہتا ہے۔مجید نظامی کے والد مرحوم صابن بنانے کا کاروبار کیا کرتے تھے۔ ان کی قید حیات اس طرح پوری ہوئی کہ صابن بھی خود بناتے اور اس کو فروخت بھی خود کیا کرتے تھے۔ مجید نظامی کا آبائی گھر سانگلہ ہل شیخوپورہ میں ہندوؤں کے محلے میں تھا۔ سامنے اور دائیں بائیں کے پڑوسی ہندو تھے۔ لیکن مجید نظامی کی والدہ ہندو ہمسایوں کے احترام کا خیال رکھتی تھیں۔ مجید نظامی والدین کے ساتھ ہندوؤں کے محلے میں رہائش پذیر تھے۔ جب تک مجید نظامی کے والد زندہ رہے گھر میں صابن بنتا تھا لہٰذا بڑے بڑے کڑاہے اور کیمیکلز بھی ہوا کرتے تھے جنہیں مشین کے ٹھپے میں ڈال کر ’’صابن‘‘ بنایا جاتا تھا۔ صابن کی دکان گھر کی پشت پر تھی۔ جبکہ والد کی وفات کے بعد ان کی والدہ کو گھر، دکان اور کاروبار سمیت سب چیزوں کو خیرباد کہنا پڑا۔ بچوں کے لیے والدہ کی گود پہلی درسگاہ ہوتی ہے۔مجید نظامی کی والدہ اپنے بچوں کو خود قرآن پڑھایا کرتی تھیں۔ مجید نظامی بھی عمربھر کم و بیش صوم و صلوٰۃ کے پابند رہے۔ والدہ سے قرآن پاک کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد مجید نظامی میونسپل بورڈ کے پرائمری سکول سانگلہ ہل میں داخل کرا دیئے گئے۔ شہر نما قصبے سے سکول کے دروازے تک لمبی پکی گلی جاتی تھی۔ سکول کمپنی باغ کے پہلو میں واقع تھا۔سہولیات کے اعتبار سے یہ بہترین درسگاہ تھی۔کلاس روم میں ڈیسک ،دیہات سے آنے والے طلباء کے لیے دو ہاسٹل اور کھیل کا میدان تھا۔ مجید نظامی نے پرائمری مدارج طے کرنے کے بعد گورنمنٹ ہائی سکول سانگلہ ہل میں درجہ نہم تک تعلیم مکمل کی۔ مجید نظامی ڈرائنگ کے بہت اچھے طالب علم تھے۔ آپ ہر سال اول آتے، فنون لطیفہ سے محبت کے اسی رحجان نے آگے چل کر مجید نظامی کو دولت سمیٹنے کے چکر میں نہیں پڑنے دیا۔ تاہم مجید نظامی دوست بنانے میں بڑے محتاط تھے، اس زمانے میں ان کے دوست شوکت علی خان اور حامد حسین ہوا کرتے تھے۔ 
 سانگلہ ہل سے ’’شاہ کوٹ‘‘ دس بارہ میل کے فاصلے پر تھا۔ شاہ کوٹ میں ہر سال پیر نولکھ ہزاری کے مزار پر ایک میلہ ہوا کرتا تھا۔ مجید نظامی ہر سال تانگے پر شاہ کوٹ جایا کرتے اور بابا نولکھ ہزاری کے مزار سے فیض سمیٹتے لیکن تانگے کے اس سفر کے برعکس آپ نے ایک دفعہ ہیلی کاپٹر میں سفر کرنے کی آفر مسترد کر دی ۔ ہوا یہ کہ نواز شریف نے اپنے دور حکومت میں ایک مرتبہ انہیں اپنے ساتھ ہیلی کاپٹر پر سانگلہ ہل چلنے کی دعوت دی کیونکہ وہ وہاں سرکاری دورے پر جا رہے تھے ۔ مجید نظامی نے اس پیشکش کاجواب دیا کہ میری اور آپ کی تعلق داری ہے لیکن میں اپنے شہر کے لوگوں پر یہ رعب ڈالنا نہیں چاہتا کہ میں وزیراعظم کے ساتھ ہیلی کاپٹر سے نکلا ہوں۔ 
آبائی قصبے سانگلہ ہل میں مجید نظامی کے بڑے بھائی بشیر نظامی ہی مستقل قیام پذیر ہوئے جو تقسیم ہند کے وقت بک سیلر تھے اور مسلم اخبارات کے ایجنٹ بھی تھے جن میں ’’زمیندار‘‘ ’’احسان‘‘ ’’شہباز‘‘ اور بعد میں ’’نوائے وقت‘‘ بھی شامل ہوا۔ مجید نظامی کے چار بھائی اور دو بہنیں تھیں۔ بڑے بھائی حمید نظامی نے میٹرک میں فرسٹ پوزیشن حاصل کی تو وظیفہ مقرر ہو گیا اور وہ اسلامیہ کالج لاہور آ گئے۔ 1938ء میں حمید نظامی نے بی اے کا امتحان پاس کر لیا اور ایف سی کالج میں ایم اے انگلش میں داخلہ لے لیا۔ حمید نظامی کا لکھنے کی طرف رحجان تھا۔ آپ کے طبع زاد افسانے، ہلکے پھلکے مضامین اور قلمی خاکے ’’شیرازہ‘‘ ’’ہمایوں‘‘ اور ’’ادبی دنیا‘‘ میں چھپتے رہے۔ اسلامیہ کالج کے میگزین ’’فروغ مشرق‘‘ کی ادارت کے فرائض بھی حمید نظامی سرانجام دیتے رہے۔ لیکن پھرا نہوںنے سیاست کے میدان کارزار میں قدم رکھ لیا۔  1937ء میں پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی اور بانی صدر منتخب ہوئے۔ آپ نے 23مارچ 1940ء کو پندرہ روزہ نوائے وقت جاری کیا۔ یہ دن پاک و ہند کے مسلمانوں کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے اور نوائے وقت اجراء کے بعد سے آج تک قومی مقاصد کے علاوہ اردو زبان کی ترویج کیلئے متحر ک چلا آ رہا ہے۔
مجید نظامی بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھے۔ ایک ہمشیرہ مجید نظامی سے بڑی تھیں انہوں نے سانگلہ ہل میں اپنی تعلیم امریکن مشن سکول میں مکمل کرکے فاطمہ جناح کالج ملتان روڈ  سے بی اے بی ٹی تک تعلیم مکمل کی اور سمن آباد کے سکول میں ہیڈ مسٹریس اور بعد میں کالج کا درجہ ملنے پر پرنسپل کا فریضہ سرانجام دیتی رہیں۔ مجید نظامی کی بڑی ہمشیرہ شادی ہوجانے کے بعد سیالکوٹ کی ہی ہو کر رہ گئی تھیں جبکہ چھوٹے بھائی خلیل نظامی ایف اے تک تعلیم حاصل کر سکے اور نوائے وقت کے پریس منیجر بنے۔ 
مجید نظامی درجہ نہم کے بعد لاہور آ گئے اور میٹرک پرائیوٹ کرنے کے بعد انٹرمیڈیٹ میں آرٹس کے مضامین کے ساتھ  اسلامیہ کالج لاہور میں داخلہ لیا۔ عمر حیات ملک کالج کے پرنسپل تھے جن کا تعلق پشاور سے تھا فارسی کے استاد علم الدین سالک اور اکنامکس کے خواجہ اسلم تھے۔ عبدالشیر آذری بھی مجید نظامی کے اساتذہ میں شامل تھے یہ وہ زمانہ تھا جب تحریک پاکستان زوروں پر تھی۔ تحریک کے جلسے جلوسوں میں شرکت کے باعث طالب علموں کو بغیر امتحان دیئے ہی ایف اے کی اسناد دی گئیں مگر مجید نظامی نے تحریک پاکستان میں بھی بھرپور حصہ لیا اور باقاعدہ امتحان میں حصہ لے کر کامیابی پر سند حاصل کی۔
مجید نظامی کے بارے میں بڑے بھائی حمید نظامی کی خواہش تھی کہ وہ بی کام کریں ۔اپنے   رجحان کے پیش نظرآپ بڑے بھائی کو بتائے بغیر تھرڈ ایئر میں گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہو گئے اور بی اے مکمل کیا۔ سابق وزیر خزانہ سرتاج عزیز مجید نظامی کے دوستوں میں سے تھے آپ اسلامیہ کالج کے بعد بی کام میں بس تھوڑی دیر کے لیے داخل رہے،جہاں سرتاج عزیز نے بی کام مکمل کیا۔ جبکہ مجید نظامی نے گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے کا امتحان پاس کر کے ایم اے پولیٹیکل سائنس میں تعلیم مکمل کی۔
مجید نظامی بھی تحریک پاکستان کی جدوجہد میں عملی طور پر شریک رہے۔ گھر کے ماحول، نوائے وقت اور پھر اسلامیہ کالج کی تربیت اس کی بڑی وجہ تھی۔ جو اس وقت کے صف اول کی قومی درسگاہوں میں شمار ہوتا تھا۔کالج کے زمانے میں چودھری عبدالحفیظ مجید نظامی کے بہت گہرے دوست تھے۔ ان کے والد چودھری عبدالکریم گورنمنٹ کنٹریکٹر تھے۔ وہ پکے مسلم لیگی اور مقامی مسلم لیگ کے صدر تھے۔تحریک پاکستان کے اولین شہید عبدالمالک اسلامیہ کالج ریلوے روڈ میں مجید نظامی کے کلاس فیلو تھے۔ جو تحریک پاکستان  میں طلبا کی جد وجہد میں ایک جلوس کے دوران سناتن دھرم کالج لاہور (موجودہ ایم اے او) لاہور کی چھت پر ہندو طلباء کی طرف سے خشت باری کے نتیجے میں جام شہادت نوش کر  گئے۔اس افسوسناک واقعہ میں اس وقت مجید نظامی عبدالمالک کے شانہ بشانہ تھے۔
مجید نظامی اپنے مزاج کے خلاف باتوں پر کبھی بھی سمجھوتہ نہ کرتے تھے۔ حمید نظامی مرحوم کی شدید علالت کی خبر مجید نظامی کو شورش کاشمیری نے دی۔ اس وقت مجید نظامی لندن گریز ان لائبریری میں تھے۔ بھائی کی علالت کا سن کر وہ جس حال میں تھے اسی روز، اسی وقت فوراً واپس چلے آئے۔ جونہی وہ لاہور پہنچے بھائی نے آنکھیں کھولیں اور کہا۔ ’’اچھا ہوا تم آ گئے‘‘ اور اتنا کہہ کر ابدی نیند سو گئے۔ ان پانچ الفاظ میں مجید نظامی پر حمید نظامی کا اعتماد تھا جو مجید نظامی نے تاحیات برقرار رکھا۔ گورنمنٹ کالج اور یونیورسٹی کے دور میں جب وہ طالب علم تھے تقریباً چار سال تک یعنی 1950ء سے 1954ء تک ’’سرراہے‘‘ بھی لکھتے رہے تھے جس میں طنز کے پہلو بھی نکلتے تھے اور اصلاح معاشرہ بھی مقصود ہوتی تھی۔ مجید نظامی کا انداز تحریر لوگوں کے دلوں میں گویا مسرتوں کے پھول کھلا دیتا تھا۔ اس میں وہ تحریک پاکستان، حالات حاضرہ اور پولیٹیکل صورتحال پر دلچسپ اور کاٹ دار جملے لکھا کرتے تھے۔ ابتدائی ایام میں ’’سرراہے‘‘ میں ہی ایک مرتبہ انہوں نے بیگم رعنا لیاقت علی کے ’’غرارے‘‘ پر دلچسپ پیرائے میں طنز کیا۔ لیاقت علی خان جو پہلے ہی نوائے وقت سے ناراض رہتے تھے اور برہم ہو گئے اور مجید نظامی کی اس تحریر سے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ ’’سرراہے‘‘ کی ابتداء حمید نظامی مرحوم نے کی تھی بعد میں وقار انبالوی سمیت بہت سارے لوگ لکھتے رہے۔
جبکہ وطن عزیز اور عالم اسلام مجید نظامی کو ایک بین الاقوامی سطح کی شخصیت کے طور پر جانتا پہچانتا اور تسلیم کرتا ہے۔ اور بلاشبہ مجید نظامی عالم اسلام کے ایک قابل فخر سپوت تھے۔

ای پیپر دی نیشن