ہمارے ریکارڈ میں پی ٹی آئی کا بنیادی ڈھانچہ موجود نہیں، 41 آزاد ارکان کی تصدیق کون کرے گا، الیکشن کمشن

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر+ وقائع نگار+ نوائے وقت رپورٹ) الیکشن کمشن نے 41 آزاد ارکان کے معاملہ پر سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔ الیکشن کمشن کی جانب سے رجسٹرار سپریم کورٹ کو جمع کرائی گئی درخواست  میں عدالت کے فیصلے کی وضاحت کی استدعا کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ  41 آزاد ارکان نے پارٹی وابستگی  کی دستاویزات جمع کرا دیئے ہیں۔ دستاویزات جمع کرانے والے ارکان نے لکھا کہ وابستگی تحریک انصاف کنفرم کرے گی  لیکن الیکشن کمشن کے ریکارڈ میں پی ٹی آئی کا کوئی پارٹی سٹرکچر نہیں ہے۔ تحریک انصاف کے بنیادی ڈھانچے کی عدم موجودگی میں آزاد ارکان کی پارٹی وابستگی کون کنفرم کرے گا۔ مزید کہا گیا ہے کہ بیرسٹر گوہر علی خان الیکشن کمشن ریکارڈ میں پارٹی چیئرمین نہیں، سپریم کورٹ اس معاملہ پر رہنمائی کرے۔ دوسری جانب الیکشن کمشن نے مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر  عمل درآمد شروع کردیا ہے اور کاغذات نامزدگی میں پی ٹی آئی سے وابستگی کا سرٹیفکیٹ جمع کرانے والے 39 ایم این ایز کا نوٹیفکیشن ویب سائٹ پر جاری کر دیا گیا ہے۔ الیکشن کمشن کے مطابق سپریم کورٹ کے 12 جولائی کے فیصلے کے تحت پی ٹی آئی کے 39 ارکان کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں تحریک انصاف نے 39 آزاد ارکان  قومی اسمبلی کی فہرست اور ان کی پارٹی سے وابستگی کے فارمز جمع کرائے تھے۔ علاوہ ازیں  نوائے وقت رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی رہنما سلمان اکرم راجہ نے اسد عمر اور فواد چودھری کی تردید کرتے  کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے فیصلہ کیا تھا جی ایچ کیو پر احتجاج ہونا چاہئے۔ زمان پارک اور جوڈیشل کمپلیکس واقعات کے بعد پارٹی میں مشاورت  ہوئی تھی۔ یہ طے کیا گیا تھا کہ ایسا دوبارہ ہوا تو احتجاج وہیں  ہوگا جہاں ہونا چاہئے۔ پارٹی کی اس مشاورت میں بانی پی ٹی آئی بھی شامل تھے۔ سلمان اکرم راجہ سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ اس خبر سے اتفاق کرتے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی  نے جی ایچ کیو کے باہر احتجاج کرنے کا کہا تھا؟۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں۔ پہلے اسد قیصر اور فواد چودھری نے کہا تھا کہ پارٹی میں جی ایچ کیو یا کور کمانڈر ہاؤس پر احتجاج کا فیصلہ نہیں ہوا تھا۔  بیرسٹر علی ظفر نے نجی ٹی وی سے گفتگو  میں  ایک سوال پر کہا کہ ایک سال میں دو الیکشن ممکن ہیں مگر اسمبلیوں کی تحلیل ضروری ہے۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی پر بھی نئے الیکشن ہو سکتے ہیں۔ عدم اعتماد کی کامیابی کیلئے اسمبلی میں اکثریت ضروری ہے۔ ہم نے سیاسی میدان کھول دیا۔ سٹریٹ پاور دکھائیں گے۔ حکومت کو نئے الیکشن کی طرف جانا پڑے گا۔ اس وقت عدالتیں کھڑی ہو گئی ہیں اور فیصلے کر رہی ہیں۔ آئین اجازت دیتا ہے کہ ایک الیکشن کے بعد دوسرا الیکشن کرائیں۔ نئے الیکشن کیلئے وزیراعظم صدر اور وزیراعلیٰ گورنر کو ایڈوائس کریں گے۔ پی ٹی آئی کے ساتھ جو ہوا اس پر اب گفتگو بھی ہو رہی ہے اور فیصلے بھی آ رہے ہیں۔ ہم آج الیکشن کمشن کے خلاف ریفرنس دائر کرنے جا رہے ہیں۔ ہم قانونی، اخلاقی طور پر جیت چکے ہیں۔ اب ہم سیاسی طور پر سٹریٹ پاور دکھائیں گے۔

ای پیپر دی نیشن