استثنا کے فیصلے کے باوجود ٹرمپ کی سزا یابی برقرار رہنی چاہیے : کیس پراسیکیوٹرز

امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف تاریخی مقدمے میں تحقیق کرنے والے نیویارک کے پراسیکیوٹروں نے سابق صدر کے اس مطالبے پر اعتراض کیا ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے 'استثنا' کا حکم جاری ہونے کے بعد ان کے خلاف سزا کا فیصلہ ختم کر دیا جانا چاہیے۔جمعرات کے روز جاری ہونے والی عدالتی دستاویز میں پراسیکیوٹروں کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ اس مقدمے پر اثر انداز نہیں ہوا جو فحش فلموں کی اداکارہ کو رقم دینے کی بنیاد پر قائم کیا گیا تھا۔نیویارک میں پبلک پراسیکیوٹر کے دفتر کے نمائندوں نے لکھا ہے کہ "اس مقدمے میں تمام الزامات کا تعلق سرکاری صدارتی تصرف سے نہیں بلکہ خالصتا ذاتی تصرف سے ہے"۔واضح رہے کہ رواں سال 30 مئی کو ڈونلڈ ٹرمپ پر 34 الزامات کے تحت مجرم قرار دیا گیا تھا۔ ان میں تجارتی ریکارڈ میں جعل سازی شامل ہے جس کا مقصد ٹرمپ کے سابق وکیل مائیکل کوہن کی جانب سے فحش فلموں کی اداکارہ اسٹورمی ڈینئلز کو 1.3 لاکھ ڈالر کی ادائیگی پر پردہ ڈالنا تھا۔ یہ رقم 2016 کے انتخابات سے قبل اداکارہ کو خاموش رہنے کے لیے دی گئی۔ اسٹورمی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ٹرمپ کے ساتھ ان کے جنسی تعلقات رہ چکے ہیں۔ٹرمپ کی جانب سے اسٹورمی کے ساتھ کسی بھی ملاقات کا انکار کیا جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے۔ ٹرمپ امریکا کی تاریخ کے پہلے صدر ہیں جن کو کسی جرم میں قصور وار ٹھہرایا گیا۔رواں سال امریکی سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ سرکاری تصرفات کی بنا پر ریاستی صدور کو فوجداری الزامات کا سامنا نہیں ہو سکتا اور سرکاری تصرف سے متعلق شواہد کو نجی امور کے حوالے سے قانونی کارروائی میں استعمال نہیں کیا جا سکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن