عراق کے عین الاسد ایئر بیس پر چار کاتیوشا راکٹ داغے جانے کی اطلاعات ہیں، دو سکیورٹی ذرائع نے بتایا بیس پر امریکہ کے زیرِ قیادت اتحادی افواج موجود ہیں؛ البتہ کسی جانی یا مالی نقصان کی فوری تصدیق نہیں ہوئی۔ذرائع نے بتایا کہ دو راکٹ فوجی مرکز کے اندر اور دو اس کے گرد ونواح میں گرے۔ اتحادی فوج کے ترجمان نے تبصرہ کی درخواست کا فوری جواب نہیں دیا۔ایک امریکی اہلکار نے ’’العربیہ‘‘ کو اس بات کی تصدیق کی کہ عراق کے الاسد ایئر بیس کے باہر رات کو ایک حملہ ہوا لیکن کوئی ہلاک یا زخمی نہیں ہوا۔ اہلکار نے کہا، "اس وقت ہمیں یہ معلوم نہیں ہے کہ کیا/کتنی تعداد میں داغے گئے۔"یہ حملہ واشنگٹن میں ایک فوجی سربراہی اجلاس کے دو دن بعد ہوا جہاں عراقی اور امریکی حکام نے اتحاد کی تشکیل کے ایک عشرے بعد اس کا کام ختم کرنے پر تبادلۂ خیال کیا۔ یہ اتحاد عراق اور شام میں یلغار کرنے والے دہشت گرد گروہ داعش سے لڑنے کے لیے بنایا گیا تھا۔مذاکرات کے اختتام پر کوئی بڑا اعلان نہیں کیا گیا حالانکہ امریکی اور عراقی ذرائع نے کہا ہے کہ آئندہ ہفتوں میں یہ بتدریج ختم ہونا شروع ہو جائے گا۔ایران سے منسلک عراقی سیاسی اور عسکری دھڑوں نے ملک کی حکومت پر اتحاد کے کام کو فوراً ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈالا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ امریکہ کے تعینات کردہ تمام 2,500 فوجی وہاں سے چلے جائیں جو کبھی وہاں قابض تھا۔واشنگٹن اور عراقی حکومت نے کہا ہے کہ وہ دوطرفہ سکیورٹی تعلقات کی طرف منتقلی چاہتے ہیں جس میں ممکنہ طور پر کچھ فوجیوں کو مشاورتی کردار میں برقرار رکھا جائے گا۔امریکہ کے زیرِ قیادت افواج نے 2003 میں عراق پر حملہ کیا، سابق رہنما صدام حسین کا تختہ الٹ دیا اور پھر 2011 میں دستبردار ہو گئے لیکن 2014 میں اتحاد کے سربراہ کے طور پر داعش سے لڑنے کے لیے واپس آئے۔ایران کے حمایت یافتہ عراقی مسلح دھڑوں نے سات اکتوبر کو غزہ جنگ شروع ہونے کے بعد عراق اور شام میں امریکی فوجی مراکز کو درجنوں بار نشانہ بنایا ہے البتہ فروری میں جنگ بندی ہونے کے بعد صرف چند ہی حملے ہوئے ہیں۔