صدر کے 2 عہدوں کے حوالے سے، لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے میں کیا پابندی سنگ و خشت سے بنے ہوئے ”ایوانِ صدر“ کو سیاست آلودہ کرنے پر تھی یا اس کے مخاطب خود صدر مملکت تھے؟
قانونی نکتہ یہ تھا کہ کیا وفاقی پارلیمانی نظام میں، صدر مملکت جو وفاق کی علامت ہوتا ہے اور مسلح افواج کا سپریم کمانڈر بھی، اس بلند و بالا منصب سے نیچے اتر کر پارٹی پالٹکس میں ملوث ہو سکتا ہے؟یہ کامن سینس کی بات تھی۔ پارلیمانی نظام کے حامل دیگر ممالک کے علاوہ خود پاکستان میں بھی نظائر موجود تھے۔ بھٹو صاحب کے 1973ءوالے آئین کے تحت بھی یہی ہوتا رہا۔ فضل الٰہی چودھری، غلام اسحاق خاں، سردار فاروق لغاری اور جناب رفیق تارڑ، سب نے اس کی پابندی کی کہ صدارت کا حلف اٹھاتے ہی جماعت سے لاتعلق ہو گئے۔ فروری 2008ءکے الیکشن کے بعد جمہوریت بحال ہوئی اور مشرف کی رخصتی کے ساتھ زرداری صاحب ایوان صدر میں براجمان ہوئے تو یہ توقع بے جا نہ تھی کہ وہ بھی اس آئینی تقاضے کا احترام کریں گے۔ لیکن بدقسمتی سے وہ پارٹی پالٹکس سے اوپر نہ اٹھ سکے۔ پالٹکس بھی جیالوں والی۔محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری برسی پر (27 دسمبر 2009) مسلح افواج کے سپریم کمانڈر کا ہدف فوج کی قیادت تھی۔ تم کتنے بھٹو مارو گے؟ کے ساتھ یہ اعلان بھی گڑھی خدا بخش کے قبرستان میں بہت جگہ باقی ہے۔ Tenure کا طعنہ اور ایوان صدر سے جیتے جی رخصتی کی بجائے ایمبولینس میں جانے کی بات۔ کیری لوگر بل کے حوالے سے کور کمانڈروں کے ردعمل پر تند و تیز اظہار خیال۔ تب جناب افتخار محمد چودھری والی عدلیہ بحال ہو چکی تھی، چنانچہ ایک اور خطاب میں اسے بھی زد میں لے لیا۔ اب ”سنگین“ کے ساتھ ”قلم“ پر بھی الزام تھا کہ پیپلز پارٹی کے متعلق، دونوں کا رویہ معاندانہ رہا ہے۔
گذشتہ روز محترمہ کی سالگرہ پر نوڈیرو میں ہدف نواز شریف تھے۔ انہوں نے اڑھائی تین سال تک، ذمہ دار حزب اختلاف پر فرینڈلی اپوزیشن کا طعنہ سنا کہ کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ سیاستدانوں نے مشرف کی آمریت سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا۔ وہ کسی کو کام کرنے کا موقع ہی نہیں دیتے اور آتے ہی ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ چاہتے تھے کہ 18 فروری کے عوامی مینڈیٹ کی حامل حکومت کو اپنا ہنر آزمانے کا مناسب وقت ضرور دیا جائے کہ عوام پر اس کی حقیقت بے نقاب ہو جائے اور اسے سیاسی مظلومیت کا سوانگ رچانے کا موقع نہ ملے۔ لیکن ان 3 برسوں میں بھی انہوں نے عدلیہ کی بحالی، این آر او کے مسئلے، ججوں کے تقرر کے لئے جوڈیشل کمشن میں حکومت کے مقابلے میں چیف جسٹس کے کردار کو زیادہ موثر بنانے اور سپریم کورٹ میں جسٹس ثاقب نثار کے تقرر جیسے مسائل پر فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ پارلیمنٹ کے اندر بھی مسلم لیگ (ن) اپوزیشن کا تعمیری کردار ادا کرتی رہی۔ اب جبکہ میاں صاحب کے خیال میں اتمامِ حجت ہو چکا اور انہوں نے پارلیمنٹ کے اندر زیادہ بھرپور کردار کے ساتھ ساتھ، پارلیمنٹ کے باہر بھی دباﺅ بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے تو یوں لگتا ہے لہریں ایوان صدر کی دیواروں تک جا پہنچی ہیں۔
2 مئی کے ایبٹ آباد واقعہ اور پھر صحافی سلیم شہزاد کے قتل پر تحقیقاتی کمشنوں کے قیام پر اصرار نے بھی اعصاب کو متاثر کیا۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی قرارداد میں تحقیقاتی کمشن کے علاوہ ڈرون حملوں پر نیٹو سپلائی روکنے اور پاک، امریکہ تعلقات پر نظرثانی کے نکات بھی مسلم لیگ (ن) کے اصرار پر شامل کرنا پڑے۔ آزاد کشمیر کی انتخابی مہم میں نواز شریف کی بھرپور شرکت نے اونٹ کی کمر پر آخری تنکے کا کام کیا اور لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد قدرے محتاط پالیسی پر عمل پیرا صدر محترم تمام احتیاطیں اور سارے آئینی تقاضے بھول گئے۔ ”شہید بی بی کی مفاہمت کی پالیسی“ بھی انہیں یاد نہ رہی۔ غصہ، نفرت، کینہ، بغض، غیظ اور غضب۔ یہاں تک کہ نوبت منہ چڑانے اور بقول شاعر ”دہن بگڑا“ تک جا پہنچی۔ نواز شریف کو ”مولوی“ قرار دے کر ضیاءالحق کا پیروکار ہونے، ان کی مولویانہ سوچ کو بے نظیر کے قتل کا ذمہ دار ٹھہرانے، سٹیل کے کاروبار کے حوالے سے ”لوہار“ کی پھبتی کسنے، ملا عمر کا ہم خیال ہونے، فوج کو سیاست سے الگ رکھنے کے موقف اور 2 مئی کے واقعہ پر تحقیقاتی کمشن کے اصرار پر فوجی قیادت کو ان کے خلاف اکسانے اور امریکیوں کے لئے نواز شریف کو مزید ناقابل قبول بنانے کی حکمت عملی۔ ہم زرداری صاحب کے ارشادات کا نکتہ وار جائزہ لینے کی بجائے صرف یہ استفسار کرنا چاہیں گے کہ کیا یہ سب کچھ صدر مملکت اور مسلح افواج کے سپریم کمانڈر کے منصب کو زیبا تھا؟