(منشیات کے عالمی دن کے موقع پر خصوصی تحریر)
آج دنیا بھر میں پینتیس کروڑ افراد نشے کے عادی ہیں جو دنیا و مافیہا سے کٹ کر ذلت، رسوائی اور بربادی کی تصویر بنا گندگی کے ڈھیر پر بے سدہ پڑے ہیں لیکن دوسری طرف صورتِ حال یہ ہے کہ افغانستان ہر سال سات ہزار ٹن سے زائد افیون (دنیا کی کل پیداوار کا نوے فیصد) اُگا کر اور اُس سے مارفین بیس اور ہیروئن بنا کر دنیا بھر میں تسلسل سے بھیجے جا رہا ہے۔ یہی افغانستان، مراکش اور کچھ وسط ایشیائی ریاستیں سالانہ دس ہزار ٹن چرس، گانجا، گردا وغیرہ بنا بنا کر دنیا بھر میں بھجوائے جا رہی ہیں۔ کولمبیا، پیرو اور بولیویا ہر سال دنیا بھر میں تیار کی جانیوالی کل کوکین تقریباً بارہ سو ٹن کا منبع ہیں اور یہیں سے یہ زہر ساری دنیا میں پھیلایا جاتا ہے۔ لاکھوں لوگ اس زہر قاتل کی تجارت کے ساتھ وابستہ ہیں اور سالانہ تین سو پچاس ارب ڈالر سے زیادہ اس ناجائز کاروبار کے ذریعے کمائے جاتے ہیں اس زہر کو بارضا ورغبت اپنے جسم میں اُتارنے والے پینتیس کروڑ عوام میں سے ساڑھے پانچ کروڑ افراد ایمفیٹمین طرز کی محرک ادویات استعمال کرتے ہیں۔ چار کروڑ سے زائد ہیروئن یا افیون سے بنے ہوئے مرکبات اور دو کروڑ سے زائد کوکین استعمال کرتے ہیں۔ ان میں سے پانچ لاکھ ہر سال اس زہر کے ہاتھوں اپنی جان دے دیتے ہیں انہی پینتیس کروڑ میں اڑھائی کروڑ سے زائد بھی شامل ہیں جو یہ زہر سرنجوں کے ذریعے اپنی رگوں میں اتارتے ہیں جس کے نتیجے میں ان میں سے ایک کروڑ تیس لاکھ ہیپاٹائٹس سی، ساٹھ لاکھ ہیپاٹائٹس بی اور پچاس لاکھ ایڈز کا شکار ہو کر تیزی سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں اور ان سب معاملات کا سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ دنیا بھر کی تمام حکومتیں، قانون نافذ کرنیوالی تمام ایجنسیاں اور علاج معالجہ کرنیوالے تمام ہسپتال، کلینک اور دیگرادارے اور تمام متعلقہ بین الاقوامی تنظیمیں اپنے تمام تروسائل استعمال کرنے کے باوجود نہ تو منشیات کی پیداوار میں کوئی کمی لا سکیں۔ اقوام عالم نے اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرتے ہوئے منشیات کے نقصانات کو کم سے کم کرنے (Harm Reduction) کی طرف توجہ مرتکز کرنا شروع کر دی ہے۔ یہ منشیات کیخلاف جہاد میں پسپائی کی طرف پہلا قدم ہے دوسرے نمبر پر ایک دوسرے کی استعمال شدہ سرنجوں سے نشے کے انجکشن لگانے سے پھیلنے والی جان لیوا بیماریوں ہیپاٹائٹس اور ایڈز سے بچاو¿ کیلئے سرکاری طور پر مفت سرنجیں فراہم کی جاتی ہیں۔ اس مقصد کیلئے بے شمار سنٹر جن میں پاکستان بھی شامل ہے دنیا بھر میں قائم ہیں۔ اس پروگرام کا نام Needle Syringes Exchange Programm (NSEP) رکھا گیا ہے۔ تیسرے نمبر پر سرنجوں کا استعمال کرنے والے نشیو¿ں کو ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ سرنج کی بجائے وہی نشہ کیپسول، پاو¿ڈر یا شربت کی صورت میں منہ کے راستے لے لیں۔ اس پروگرام کا نام Oral Drug Substitution (ODS) ہے۔ چوتھے نمبر پر نشے کے عادیوں کو زیادہ نقصان دہ منشیات سے کم نقصان دہ منشیات کی طرف راغب کیا جاتا ہے‘ اس پروگرام کا نام Drug Substitution Treatment (DST) ہے۔ بے شمار ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں سرکاری اور غیر سرکاری اہتمام میں ایسے بے شمار سنٹر کام کر رہے ہیں جہاں نشئیوں کو ہیروئن کے بجائے میتھاڈان مفت پلائی جاتی ہے تاکہ انکی نشے کی طلب کی بھی تسکین ہوجائے اور وہ ہیروئن کی تباہ کاریوں سے بھی بچے رہیں۔ گو میتھاڈان کے اپنے بھی نقصانات ہیں۔
منشیات کے استعمال اور اسکی تباہ کاریوں کے ضمن میں پاکستان کی صورتحال بھی دوسرے اقوام عالم سے کچھ مختلف نہ ہے اگردنیا بھر میں پندرہ سال سے چونسٹھ سال کی عمر کے ساتھ فیصد افراد نشے کی عادت کا شکار ہو چکے ہیں تو پاکستان میں بھی UNODC اور حکومت پاکستان کی وزارتِ انسداد منشیات اور شماریات ڈویژن کے تعاون سے 2012ءمیں کئے جانیوالے ایک سروے کے مطابق ایسے افراد کی تعداد پانچ فیصد یعنی اسی لاکھ ہے جبکہ کل نشئیوں کی تعداد نوے لاکھ سے کچھ زائد ہے جو پاکستان کی کل آبادی کا پانچ فیصد بنتے ہیں ان نوے لاکھ میں بیس لاکھ افراد پندرہ سے پچیس سال کی عمر کے نوجوان اور تیس لاکھ عورتیں بھی شامل ہیں ان میں چالیس فیصد ان پڑھ جبکہ ساٹھ فیصد پڑھے لکھے ہیں۔ بتیس فیصد بے روزگار جبکہ اڑسٹھ فیصد برسرِروزگار ہیں ان تمام نوے لاکھ میں سے ساٹھ لاکھ بھنگ اور چرس، ستائیس لاکھ افیون اور ہیروئن اور تقریباً تین لاکھ محرک ادویات استعمال کرتے ہیں۔ سات لاکھ افراد منشیات کو بذریعہ انجکشن لیتے ہیں جن میں سے تین لاکھ ہیپاٹائٹس یا ایڈز کا شکار ہو چکے ہیں اور اس سارے الیمہ کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ان نوے لاکھ نشئیوں کے علاج معالجے کیلئے پاکستان بھر کے تمام سرکاری، نیم سرکاری، پرائیویٹ رجسٹرڈ یا غیررجسٹرڈ ہسپتالوں اور سنٹروں میں زیادہ سے زیادہ سال بھر میں تیس ہزار افراد کا اچھا یا بُرا علاج معالجہ کرنے کی گنجائش ہے گویا باقی تمام کو سسک سسک کر مرنا ہی ہے۔
انسانی زندگی کو صرف منشیات سے ہی خطرہ نہیں، شراب، سگریٹ اور شیشہ اس سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال اگر منشیات کے ہاتھوں پانچ لاکھ افراد موت کے منہ میں جاتے ہیں تو شراب کے ہاتھوں تیس لاکھ اور تمباکو نوشی کے ہاتھوں ساٹھ لاکھ افراد لقمہ اجل بنتے ہیں۔ پاکستان میں کل آبادی کا پچیس فیصد سگریٹ نوشی کی عادت کا شکار ہے جو سالانہ چار سو پچاس ارب روپے کے سگریٹ پھونک ڈالتا ہے۔ پھیپھڑے اور سانس کے کل مریضوں میں سے اسی فیصد سگریٹ نوشی کے عادی پائے گئے ہیں اور پاکستان میں ہر سال ایک لاکھ سے زائد اشخاص تمباکو نوشی سے پیدا ہونیوالی بیماریوں کے باعث موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔
پچھلے کئی سال سے پاکستانی ادارے ہر سال پہلے سے کہیں زیادہ منشیات پکڑ کر تلف کر رہے ہیں۔ وزارتِ انسداد منشیات اور اینٹی نارکوٹکس فورس نے عوام کو منشیات کی تباہ کاریوں کے بارے میں آگاہی دینے کیلئے پچھلے تین سال میں چار ہزار سے زیادہ پروگرام ترتیب دیئے۔ اس ضمن میں وزارتِ انسداد منشیات اور اینٹی نارکوٹکس فورس کا سب سے بڑا کارنامہ ”منشیات سے پاک شہر لاہور“ کا منصوبہ ہے جس کے تحت لاہور کو منشیات سے پاک کرنے کا عزم کیا گیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت پچھلے اڑھائی سال میں صرف لاہور شہر میں بیس ہزار سے زائد افراد کو منشیات رکھنے یا منشیات کا کاروبار کرنے کے جرم گرفتارکیا گیا۔ پانچ ہزار سے زائد نشئیوں کا علاج معالجہ کیا گیا۔ اس پراجیکٹ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہبازشریف نے نشے کے مریضوں کے علاج معالجے کیلئے لاہور میں سو بستروں پر مشتمل ایک سٹیٹ آف دی آرٹ ہسپتال بنانے کا حکم دیا۔