اندھیرے اور اندھیر میں فرق

شب برات کو بھی لوڈشیڈنگ ہوئی ہے کہتے ہیں کہ بہت برکتوں والی رات ہے اس رات کو زندگیوں کے بارے میں فیصلے ہوتے ہیں۔فیصلہ کرنے والی اللہ کی ذات ہے مگر ہم ہیں کہ اپنے لیے فیصلے خود کرتے ہیں۔لوڈشیڈنگ کے لئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ بجلی بھارت سے خریدیں گے۔ یہ فیصلہ کیوں ہوا ہے کس نے کر دیا ہے کچھ فیصلے آدمی خود کرتا ہے اور اپنے فائدے کے لئے کرتا ہے مگر وہ اپنا نقصان کر رہا ہوتا ہے۔ یہ بجلی بھارت نے ہمارے حصے کے پانیوں پر ڈیم بنا کر بنائی ہے ہمیں ایک کالا باغ ڈیم نہیں بنانے دیا اور خود سوسے زیادہ ڈیم بنا لئے پھر بھی لوڈشیڈنگ بھارت میں ہوتی ہے اس کے باوجود وہ ہمیں بجلی بیچ رہا ہے اور ہم خریدنے کے لئے تیار ہیں۔ وہ ہمیں محتاج بنانا چاہتا ہے امریکہ اپنی غلامی کے بعد ہمیں بھارت کا بھی غلام بنانا چاہتا ہے پاکستانی حکام یہ بھی قبول کریں گے مگر پاکستانی عوام کبھی قبول نہیں کریں گے۔ مسلم لیگ ن کا کوئی سیاستدان نہیں جو یہ کہہ سکے کہ ایران بہت سستی بجلی دیتا ہے تو ہم کیوں نہیں لیتے، چین دیتا ہے مگر امریکہ نے کہا ہے کہ بجلی صرف بھارت سے لو اور مہنگے داموں لو۔ بجلی کی قیمت بڑھاﺅ، بڑھاتے جاﺅ، لوڈشیڈنگ ساتھ ساتھ رکھو، بجلی مہنگی بھی ہو مگر ہو تو سہی۔ لوگ بلبلا اٹھیں گے مگر بل ضرور دیں گے؟
ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک مند کہتے ہیں کہ مجھے اجازت دو ، دو سال میں لوڈشیڈنگ بالکل ختم ہو جائے گی۔ ڈاکٹر ثمر مبارک مند ڈاکٹر قدیر خان سے کم نہیں ہیں۔ ایٹمی دھماکے کرتے ہوئے نواز شریف نے ڈاکٹر ثمر مبارک مند کو ڈاکٹر قدیر سے آگے رکھا تھا۔ ایٹم بم بنانے میں ڈاکٹر ثمر مبارک مند آگے تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ ڈاکٹر ثمر مبارک مند بھی بہت قابل اور قابل اعتماد ہیں۔ ڈاکٹر قدیر کے لئے خیال تھا کہ اب وہ زندگی کے دوسرے شعبوں میں کام آئیں گے۔ امریکہ کو اندیشوں نے آ گھیرا اور ڈاکٹر قدیر کو جنرل مشرف کے ذریعے کھڈے لائن لگا دیا گیا۔ اب ڈاکٹر ثمر مبارک مند کے لئے فکر لگ گئی ہے۔تھرکول سے بجلی پیدا کرنے کی بات تو سب کرتے ہیں مگر ڈاکٹر ثمر مبارک مند کی بات امریکہ کیسے ہضم کرے گا۔ نواز شریف اب ڈاکٹر ثمر مبارک سے کام نہیں لےں گے۔ پہلے انہوں نے ڈاکٹر صاحب سے اتنا کام لیا تھا۔ ڈاکٹر ثمر مبارک مند پاکستان کے لئے مبارک ثابت ہوں گے مگر بجلی تو بھارت سے خریدنا ہے۔ ہمارے ہاں صرف سیاسی بات ہوتی ہے سیاستدان صرف بیانات دیتے ہیں اور دیتے ہی رہتے ہیں۔ نواز شریف نے بہت کمال کیا۔ مجید نظامی کی دھمکی کام کر گئی اور انہوں نے دھماکے کر دیئے میرا خیال ہے کہ امریکہ اوپر اوپر سے ہمارے ایٹمی دھماکوں کے خلاف تھا۔ بھارت اور اسرائیل اندر اندر سے خلاف ہیں۔ اس لئے امریکہ بھی محتاط ہے۔ امریکہ خطے میں بہت سے ایٹمی ملک چاہتا ہے کہ طاقت کا توازن اس کے حق میں رہے۔ چین کے مقابلے میں بھارت کو ہلا شیری دی اور بھارت کے مقابلے میں پاکستان کو تھپکی لگائی۔ شاید اسے یہ معلوم تھا کہ ایٹم بم پاکستانی حکمرانوں کے لئے مصیبت بن جائے گا۔ جنرل ضیاءکو اس لئے فارغ کیا گیا کہ اس نے راجیو گاندھی کے پاﺅں تلے سے زمین نکال دی تھی جبکہ ابھی ایٹمی دھماکے بھی نہ ہوئے تھے۔ اس کے بعد ہمارے حکمرانوں نے اسی میں خیر سمجھی کہ ایٹم بم کو چھپا کے رکھو۔ ہمارے حکمران ابھی تک ایٹم بم سے چھپتے پھرتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسے لگتا ہے کہ ہمارے پاس ایٹم بم ہے بھی یا نہیں ہے۔ خدانخواستہ؟
نواز شریف نے الیکشن کے دوران ہی بھارت دوستی کے نعرے لگائے۔ شاید انہیں اندیشہ تھا کہ اس کے بغیر وہ جیت نہیں سکیں گے اور وہ جیت گئے بلکہ وہ بہت جیت گئے۔ اس حوالے سے منور حسن کا یہ جملہ بہت مزیدار اور معنی خیز ہے ”جن کو جیتنا تھا وہ زیادہ جیت گئے اور جن کو ہارنا تھا وہ زیادہ ہار گئے“۔ کبھی فیصلے کچھ زیادہ ہو جاتے ہیں کبھی فیصلے کم رہ جاتے ہیں کیونکہ اصولی فیصلے کرنے والی تو اللہ کی ذات ہے۔
نوکر پیشہ ڈرائیور ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے ہی اپنے آپ کو بس کا مالک سمجھنے لگتے ہیں۔ دھیان آسانی سے پاکستانی حکمرانوں کی طرف چلا جاتا ہے۔ ایک مسافر نے ڈرائیور کو احتیاط سے چلانے کا مشورہ دیا۔ ڈرائیور بولا، ارے بزدل مسافر، زندگی موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ مسافر نے کہا کہ وہ تو مجھے بھی معلوم ہے مگر ہم زندگی اور موت اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں تو حادثے ہوتے ہیں۔ فیصلوں میں نواز شریف سے جلد بازی کی توقع نہیں۔ جتنی توقعات نواز شریف نے قوم کے تڑپتے ہوئے دلوں میں رکھ دی ہیں۔ وہ جلدی جلدی کریں مگر کچھ ایسا نہ کریں کہ محروم مظلوم لوگ اپنے آپ سے شرمندہ ہو جائیں۔ ایک بات نواز شریف سے عرض کر رہا ہوں کہ بھارت کے ساتھ دوستی میں لوگوں کے جذبات کا خیال رکھیں اور بھارت سے بجلی بالکل نہ خریدیں۔ مفت بھی ملے تو نہ لیں ورنہ حکومت کے خلاف ایسے مظاہرے ہوں گے کہ قیامت برپا ہو جائے گی۔ قیامت کا سامنا لوگ تو کر رہے ہیں ابھی حکمرانوں نے قیامت دیکھی نہیں لوگوں نے تو قسمت کا نام قیامت رکھ لیا ہے۔
اللہ فرماتا ہے کہ انسان خسارے میں ہے۔ سیاست میں صرف ذاتی فائدے کے لیے حکومت کرنا اچھا نہیں۔ اچھے برے میں فرق کرنا بھی حکمرانوں کا کام ہے۔ سب اچھا کی رپورٹ دینے والے ازلی خوشامدی پھر نواز شریف کے آس پاس ہیں۔ وہ ہر حکمران کے پاس ہوتے ہیں کوئی تو سوچے کہ بھارت امریکہ کی ہدایت پر پاکستان کو بجلی بیچنے پر کیوں ضد کر رہا ہے۔ احسن اقبال کہتے ہےں کہ ہر دوست اور پڑوسی ملک سے مدد لینے کو تیار ہیں۔ ہر پڑوسی ملک دوست ملک نہیں ہوتا۔ 2011ءمیں صدر زرداری کو ایران کے دورہ کے موقع پر دس ہزار میگاواٹ بجلی دینے کی پیشکش کی گئی تھی تو صدر زرداری نے جرات کیوں نہ کی تھی۔ ایران کئی ہمسایہ ملکوں کو بجلی دے رہا ہے اور امریکہ کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ ایران 70ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کر رہا ہے اور پاکستان کا انرجی بحران صرف سات ہزار میگاواٹ ہے لوگ اندھیروں میں زندگی گزار لیں گے مگر بھارت سے آئی ہوئی ”روشنیاں“ قبول نہیں کریں گے۔ انہیں اندھیرے اور اندھیر کا فرق معلوم ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...