اسلام آباد (آن لائن) سپریم کورٹ نے چکوال سے لاپتہ دو نوجوانوں عمر زادہ اور عمر بخت کی بازیابی کے لئے پولیس کو یکم جولائی تک مہلت دیتے ہوئے انہیں حکم دیا ہے لاپتہ افراد کو بازیاب کر کے عدالت میں پیش کریں جبکہ عدالت میںلال مسجد آپریشن کے دوران لاپتہ ہونے والے طلبا کے لواحقین غم وغصے سے پھٹ پڑے اور زاروقطار روتے ہوئے عدالت سے استدعا کی ان کے بچوں کو لاپتہ ہوئے 7 سال کا عرصہ گزر گیا، ہمیں لاشیں تک نہیں دی گئیں وکیل ہمارا ساتھ نہیں دیتا تو نہ دے عدالت تو دے۔ جس پر جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا عدالت شواہد اور حقائق پر فیصلے دیتی ہے کسی کے رونے دھونے سے کچھ نہیں ہو گا۔ لاپتہ افراد کے مقدمات ہم سب کے لئے آزمائش ہیں آپ کو کیا بتائیں ان مقدمات سے ہماری راتوں کی نیندیں تک اڑ چکی ہیں۔ مایوس ہونا کسی مومن کا شیوہ نہیں۔ وکیل کے رویے پر اعتراض ہے اس طرح کام نہیں چلے گا۔ لال مسجد والے ہم پر بھی رحم کریں ۔ہمیں لال مسجد آپریشن کا نہیں پتہ۔ دنیا میں جو ہوتا ہے ہوتا رہے ہمیں اس سے غرض نہیں ہم نے صرف اس کی سماعت کرنا ہے جو معاملہ ہمارے روبرو ہے۔ جب تک اللہ کی توفیق ہے۔ ان مقدمات کی سماعت کرتے رہیں گے۔ اٹارنی جنرل آفس میں لاپتہ افراد کا سیل قائم کر دیا گیا ہے وہ مقدمات کی درجہ بندی کر رہے ہیں۔ تمام معاملات کو الگ الگ سنا جائے گا۔پہلے بھی مقدمات کا طوفان تھا کس کو سنتے۔ 27 جون کو کیس کی سماعت کریں گے۔ آمنہ مسعود جنجوعہ کی معاونت سے بہت سے لاپتہ افراد بازیاب ہوئے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے لال مسجد آپریشن کے دوران لاپتہ ہونے والے طلبہ علی اکبر، طاہر فاروق ،شعیب اور محمد علی وغیرہ کے مقدمات پیر کو لگانے کا حکم دیا ۔عمر بخت کی بازیابی کے لئے مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو آمنہ مسعود جنجوعہ پیش ہوئیں۔ جسٹس جواد نے کہا پولیس افسر احسان الٰہی نے واضح طور پر بتایا تھا یہ اگر گیم پڑی ہے تو آپ تو گھبرانا نہیں ہمیں یہ بچے چاہئیں۔ پولیس نے بتایا پراگریس ہوئی ہے یہ ایجنسی کی تحویل میں ہیں۔ آئین و قانون کے مطابق چلنا ہے کوئی ایجنسی آئین سے بالاتر نہیں۔ عدالت نے اٹارنی جنرل منیراے ملک اور ڈی اے جی علی زئی کو طلب کیا۔ جسٹس جواد نے کہا مقدمات میں پیش رفت ہو رہی ہے ہم نے اٹارنی جنرل کو بلایا تھا پیر کو وہ بتلائیں گے وہ مقدمات کی کیٹیگریز بنا رہے ہیں۔ آمنہ بی بی آپ اے جی کے ساتھ معاونت کریں۔ کچھ مقدمات ایسے ہیں جو کئی سال سے پڑے ہوئے ہیں۔ آپ اور ہماری کوشش ان کی بازیابی ہے ہم نے کیا کرنا ہے ہم نے اپنی ذمہ داری پوری کرنا ہے۔ کوئی آ کر بتلا دے وہ آئین سے بالاتر ہے ۔قاضی امین نے کہا آپ صحیح سمت جا رہے ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا افسران کی حرکات و سکنات سے ہمیں معلوم ہوگا یہ بندے کہاں ہیں اس کیس کو بھی پیر کو سنیں گے۔ اٹارنی جنرل نے کہا ممکن ہے کچھ مقدمات کی ضرورت نہ رہے وہ سیل بنا رہے ہیں۔ جسٹس جواد نے آمنہ مسعود جنجوعہ سے کہا ہمارے تمام تر جذبات اور احساسات آپ کےساتھ ہیں ہم ذمہ داری پوری نہیں کرتے تو پھر ہمیں گھر چلے جانا چاہئے اور میں ایسا ہی کروں گا۔ لال مسجد سے لاپتہ ہونے والے افراد کے اہلخانہ بھی پیش ہوئے اور کہا آپ ہمیں نہیں سن رہے ہیں۔ سات سال سے آرہے ہیں یہ ظلم ہوا ہے۔ آپ ہماری مدد کریں ۔ جسٹس جواد نے کہا یہ رونا نہیں چلے گا حقائق دیکھ کر فیصلہ کریں گے آپ کے رونے پر ہم فیصلہ نہیں کر سکتے۔ جسٹس خلجی نے کہا پولیس نے مقدمہ کیوں درج نہیں کیا۔ محمد شعیب کے حوالے سے ایف آئی آر درج کریں ان کا بیان حاصل کریں۔ گل فقیر ایف سی آر کے پاس ہے۔ اس حوالے سے بھی معاملے کو دیکھیں گے۔
لاپتہ افراد کے مقدمات نے نیندیں آڑا دیں‘ یہ ہم سب کے لئے آزمائش ہیں : جسٹس جواد
Jun 26, 2013