اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) پرویز مشرف کیخلاف بغاوت کے مقدمہ سمیت دیگر مقدمات میں فوج عمومی طور پر غیر جانبدار ہے اور سابق صدر کیخلاف جاری قانونی چارہ جوئی میں کسی نوعیت کی مداخلت کا ارادہ نہیں رکھتی۔ ایک مستند ذریعہ کے مطابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی پر تو پرویز مشرف کے حوالے سے کوئی اخلاقی ذمہ داری بھی عائد نہیں ہوتی کیونکہ انہوں نے دو بار سابق صدر کو سردست وطن واپس نہ آنے کا مشورہ دیا اور اس حوالے سے اپنے رفقاءکو بھی اعتماد میں لیا۔ پاکستان میں سابق صدر کیلئے معاندانہ حالات کی درست معلومات ان تک پہنچانے کیلئے میجر جنرل سطح کے ایک ایسے افسر کو بھی دبئی ان کے پاس بھجوایا گیا جن کا تعلق غیر منقسم ہندوستان کے ایک نواب خاندان سے ہے لیکن پرویز مشرف نہیں مانے ،وطن واپس آئے اور اب انہیں اَن گنت مقدمات کا سامنا ہے۔ اس ذریعہ کے مطابق پرویز مشرف نے اپنی گردن خود پھنسائی۔ وطن واپسی کے بعد انہیں ایک بار پھر مشورہ دیا گیا کہ وہ واپس چلے جائیں لیکن ان کا اصرار تھا کہ نئی حکومت کی حلف برداری کے بعد ہی وہ واپس جائیں گے۔” تمام شواہد ثابت کرتے ہیں کہ پرویز مشرف ایک گھمنڈی آدمی ہیں جو اب بھی کسی کو خاطر میں نہ لانے کی عادت میں مبتلا ہیں۔“ پرویز مشرف نے حکومت کو اپنے خلاف کارروائی کرنے کا موقع اس وقت فراہم کیا ہے جب خود فوج کمانڈ کی تبدیلی کے عمل سے گزرنے والی ہے۔ اس ذریعہ کے مطابق فوج کی اعلیٰ کمان کو تو اس کوششوں کا علم ہے جو پرویز مشرف کو وطن واپسی سے باز رکھنے کیلئے کی گئیں لیکن اس سے نچلے عہدوں پر فائز شاندار کیرئیر کے حامل افسران بھی سابق صدر کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے۔ انکے پیش نظر یہ حقائق ہیں کہ پرویز مشرف کے دور اقتدار میں فوجی افسروں کی شہادت کی شرح سب سے زیادہ رہی۔یہ شرح اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ کاکول اکیڈمی میں زیر تربیت افسران کی تعداد بڑھانی پڑی۔ یہ تو فوج کا ڈسپلن اور اس پیشہ سے افسروں اور جوانوں کی لگن ہے کہ شہادتوں کی اتنی بڑی شرح کے باوجود انہوں نے جان قربان کرنے کا سلسلہ جاری رکھا اور اپنے مورال و عزم میں کوئی کمی نہیں آنے دی۔ ایک اور ذریعہ کے مطابق پاکستان کی نومنتخب حکومت کی اعلیٰ شخصیات کو فوج کی طرف سے پرویز مشرف کو وطن واپسی سے روکنے کی کوششوں کا علم تھا۔ ان کوششوں کے باوجود جب پرویز مشرف پاکستان واپس آئے، نئی حکومت کو للکارنے کی کوشش کی اور واپسی کے مشوروں پر عمل نہ کیا تو حکومت کی طرف سے اعلیٰ ترین سطح پر عسکری اور سیاسی قائدین تک یہ تاثر منتقل کیا گیا کہ پرویز مشرف شائد یہ سمجھتے ہیں کہ اس ملک میں کوئی قانون نہیں اور کوئی ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا چیلنج قبول نہیں کریگا۔ایک اور ذریعہ کے مطابق سابق عسکری رفقاءکے علاوہ دیگر لوگوں نے بھی پرویز مشرف کو وطن واپسی کے مضمرات سے آگاہ کیا۔ لندن میں ایک نجی ملاقات کے دوران جب پرویز مشرف کو پاکستان میں ان کیلئے مشکلات سے آگاہ کیا گیا تو انہوں نے مخاطب کو جواب دیا کہ ”آپ نے صرف بنت انگور کا نشہ چکھا ہے، اقتدار کا نشہ نہیں چکھا۔“